ہاں ! اگر مصنف کے ذکر کردہ لفظ کے بعد شارح اپنی جانب سے کوئی قید بڑھانے کے وقت ایسا لفظ ذکر کرے، تو اُس وقت غرض یہ ہو تی ہے کہ، اب میری اِس قید کے بڑھا دینے سے اِس تعریف یا قانون کے بابت مصنف پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا، اور یہ قید مصنف کے منظور نظر تھی؛ تا ہم اختصاراً یا کسی اَور وجہ سے اِس سے اعراض کیا ہوگا(۱)۔
قاعدہ۱۵): شارحین جب: بِالفَتْحِِ، بِالکَسْرِ، بِالضَّمِ؛ بِالتَّشْدِیْدِ، بِالتَّخْفِیْفِ؛ بِالْمَدِّ، بِالقَصْرِ کہتے ہیں (۲)، یا مصنف کے غیر ثلاثی مجرد سے صیغۂ اسم فاعل یااسمِ مفعول کے بعد شارح اِسْمُ الفَاعِلِ، اِسْمُ المَفْعُوْلِ کہہ دیتے ہیں ، یا مصنفؒ کے مستعمل صیغۂ ماضی ومضارع کے بعد مَصدرٌ مَبنِيٌّ للفاعِلِ، مَصدرٌ مَبنِيٌّ للمَفعوْلِ کہتے ہیں جن سے مقصود کبھی تو:
۱)دفعِ دخل مقدّر کو بیان کرنا ہوتا ہے۔
۲)کلمے کے ضبط کو واضح کرتے ہوئے معنیٔ غیر مرادی کے احتمال کو ختم کرنا ہوتا ہے، ایسے الفاظ کو اصطلاح میں ’’ضبط‘‘ کہتے ہیں ۔
ـ اور ہمارے مذکورہ بیان سے وہ اعتراض دفع ہوگیاجو اِس موقع پر وارد ہوتا تھا کہ: اگر اِس امر سے عربی اصطلاح مراد ہے تو علیٰ سبیل الاستعلاء کی ضرورت نہیں ہے؛ اِس لیے کہ اُن کے نزدیک التماس اور دعا بھی امر ہے، اور اگر اِس امر سے اصولیوں کی اصطلاح مراد ہے تو امر اُن کلمات پر بھی صادق آئے گا جن سے تہدید اور تعجیز مراد ہو؛ اِس لیے کہ یہ بھی علیٰ سبیل الاستعلاء ہوتے ہیں ۔ اور جواب یہ ہے کہ: ہم اصولیوں کی اصطلاح پر کلام کر رہے ہیں ، اور (یہاں ) محض استعلاء مقصود نہیں ہے؛ بلکہ فعل کو لازم کرنا مقصود ہے، اور یہ نہیں صادق آتا مگر وجوب پر، بر خلاف تہدید، تعجیز وغیرہ کے۔
(۱)اِس کی مثال ’’وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے‘‘ کے تحت امرِ ثامن کے ضمن میں گزر چکی ہے۔
(۲) جیسے: تہذیب المنطق میں علامہ سعد الدین تفتازانیؒ نے اپنی کتاب کے بارے میں فرمایا ہے: جَعلتُہٗ تبصرۃً (مُبصِّراً) لمنْ حاولَ التبَصُّرَ لدَی الاِفھامِ ((بالکسر))، أیْ تفھیمُ الغیرِ إیاہٗ، أو تفھیمُہ للغیرِ؛ والأوّلُ للمتَعلِّمِ، والثانيْ للمعلِّمِ۔ وتَذکرۃً لمنْ أَرادَ أَنْ یتذکَّرَ مِنْ ذوِیْ الأَفھامِ ((بفتح الھمزۃ))، جمعُ فھمٍ۔ یعنی مَیں نے اِس کتاب کو آنکھیں کھولنے والا بنایا ہے اُس شخص کے لیے جو آنکھیں کھولنا چاہتا ہے سمجھنے اور سمجھانے کے وقت؛ اور بنایا مَیں نے اِس کتاب کو یاد داشت اُن لوگوں کے لیے جو یاد کرنا چاہے سمجھ داروں میں سے۔ اِس مقام پر شارح ’’بالکسر‘‘ اور ’’بالفتح‘‘ لا کر معنیٔ غیر مرادی کا احتمال دُور فرما رہے ہیں ۔ (شرحِ تہذیب ص:۵)