ۃ لفظِ ’’أيْ‘‘ کا فلسفہ ۃ
۔ اقسامِ متعددہ میں سے کسی ایک قسم کو، یا شقوقِ مذکورہ کی کسی شق کو لفظِ ’’أي‘‘ سے خاص کرلینا ۱۷۴
۔ حاشیہ وبین السطور کی اہمیت اور کتاب وحاشیہ حل کرنے کا طریقہ(حاشیہ)
۱۷۵
۔ أيْ مُطلقاً سَوائٌ کانَ کی مراد ۱۷۸
۔ لفظِ ’’أي‘‘ کبھی معنیٔ مجازی، کنائی، لغوی یا اصطلاحی معنی کی طرف مشیر ہوتا ہے ۱۷۸
۔ مقدر حرف وکلمہ؛ محذوف حرف وکلمہ کو ظاہر کرنے کے لیے لفظِ ’’أي‘‘
۱۷۹
۔ شارحین کا بالجُملۃِ، تَوضیْحُہٗ، الحاصِلُ، حاصِلہٗ اور مَحصلُہ کا قول کرنا۱۸۰
۔ حاصِلُ ومَحصولُ… اور بالجُملۃِ وفيْ الجُملۃِ کا فرق(حاشیہ) ۱۸۰
۔ بائِ تصویرہ ۱۸۰
۔ مصنف کا لفظِ أیضاً کے بعد لفظِ ’’کمَا‘‘ سے کلام کا آغاز کرنا ۱۸۱
۔ حیثیتِ اطلاقیہ، تقییدیہ اور ان کے ما بین فرق ۱۸۱
۔ کلام کے اختتام پر شراح کا قول: فَلا یَردُ عَلیہِ، فلا یَردُ بہِ، فلا یَعترضُ عَلیہِ، فلا وُرودَ اور فاء کی تعیین ۱۸۲
۔ بخلافِ، اور وبخلافِ کا فرق(حاشیہ) ۱۸۲
ۃ مصنفین کی لغزشوں پر عذر بیانی اور اندازِ تحریر ۃ
۔ شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ: یعنی قیل، ظُنّ، وُہمَ، اُعترِضَ، اُجیبَ، بَعضُ الشُّراحِ، بعض الشُّروحِ والحَواشِي ۱۸۴
۔ شارحین کا قول: بنائً علیہ، ہٰذا القولُ مَبنيٌّ علیٰ… ۱۸۴
۔ اعتراض کا جواب اللّٰہمّ إلا أنْ یُقالَ… سے دینا ۱۸۵