کی طرح ہے۔
فائدہ: ایسے مقامات میں اِنْ اور اِذا شرطیہ جو در حقیقت قضیۂ مہملہ(۱) کے لیے استعمال ہوتے ہیں ، کُلَّمَاکے مانند ( محصورہ موجبہ کلیہ کے لیے) استعمال کیے جاتے ہیں ، اِسی لیے مشہور ہے کہ: مُہمَلاتُ العُلومِ فِي حُکمِ المَحصُورَۃِ الکُلَّیَہِ(۲)۔
ـفيْ المعنَی فلابدَّ فیْہا منْ رابطٍ یَربِطُہا بالمُبتدأ…، وإِنْ کانتِ الجُملۃُ الواقعۃُ خبراً ہيَ المبتدأُ فيْ المَعنَی لمْ تَحتَجْ إلی رابطٍ…۔
وَالمُفْرَدُ الجَامِدُ فَارِغٌ، وَإِنْ
یُشْتَقَّ فَہْوَ ذُوْ ضَمِیْرٍ مُسْتَکِنْ
تَقدَّمَ الکلامُ في الخبرِ إذا کانَ جُملۃً، وأمَّا المُفرد: فإمَّا أنْ یکونَ جامداً، أوْ((مقامِ تقسیم میں ’’او‘‘ برائے تنویع ہے)) مُشتقاً ((قضیہ شرطیہ منفصلہ غیر مانعۃ الجمع))؛ فإنْ((مقسم کے اقسام کو ذکر کرنے کے بعد کلمۂ ’’إنْ‘‘)) کانَ جامداً، فذکرَ المُصنِّف أنہٗ یکونُ فارِغاً مِن الضمیرِ، نحوُ: زیدٌ أخوْکَ…۔ وإنْ کانَ مُشتقاً فذکرَ المُصنف أنَّہ یَتحمَّلُ الضَّمیرَ، نحوُ: زیدٌ قائمٌ أيْ: ہُوَ۔ ہٰذا الحکمُ إذا لمْ یرفعْ ظاہراً، و((واؤ استینافیہ، برائے دفع دخل مقدر)) ہٰذاالحکمُ إنما ہوَ للمُشتقِّ الجاريْ مَجرَی الفِعلِ: کاسمِ الفاعلِ، واسمِ المفعول، وَالصفۃِ المُشبَّہۃِ، واسمِ التفضیلِ۔ ((شعر میں مذکور ’’یشتقُّ‘‘ کی ایک شق ’’جاری مجری الفعل ‘‘کو متعین کیا))، فأمّا مَا لیسَ جاریاً مَجرَی الفعلِ من المُشتقاتِ فلایَتحمَّلُ ضمیراً، وذلک کأسْمائِ الآلۃ، نحوُ: مفتاحٌ؛ فإنہٗ((الفاء للتعلیل)) مشتقٌ من الفتحِ ولا یتحملُ ضمیراً۔ (ابن عقیل۱؍۱۷۵)
(۱) قضیہ حملیہ کی طرح قضیہ شرطیہ بھی (چاہے متصلہ ہو یا منفصلہ) محصورہ (موجبہ کلیہ، موجبہ جزئیہ، سالبہ کلیہ، سالبہ جزئیہ)، مہملہ اور شخصیہ ہوتا ہے۔
قضیہ شرطیہ متصلہ و منفصلہ میں سے ہر ایک کا سور حسبِ ذیل ہے:
[۱]متصلہ موجبہ کلیہ کا سور: کلما، مھما، متیاور اِن کے ہم معنیٰ الفاظ ہیں ۔ [۲]منفصلہ موجبہ کلیہ کا سور: دائما، ابداً اور اِن کے ہم معنیٰ الفاظ ہیں ۔ [۳]متصلہ ، منفصلہ سالبہ کلیہ: اِن کا سور لیس البتۃ ہے۔ [۴]متصلہ، منفصلہ موجبہ جزئیہ : اِن کا سور، قد یکون ہے۔ [۵]متصلہ، منفصلہ سالبہ جزئیہ: اِن کا سور، قد لایکون ہے۔
شرطیہ مہملہ: وہ قضیہ شرطیہ ہے جس میں مقدم پر حکم مطلق ہو، یعنی تمام حالات یا بعض حالات کا کوئی ذکر نہ ہو، جیسے: إذا کان الشيء انساناً کان حیواناً: جب کوئی انسان ہوگا تو وہ حیوان ہوگا، اِسی طرح ذکر کردہ مثال: إن کان (الخبر)، جامداً فیکون فارغاً من الضمیرِ، کہ ہر وہ خبر جو اسمِ جامد ہو تو وہ ضمیر سے خالی ہوگی، یہ قضیہ مہملہ ہے؛ لیکن محصورہ کلیہ کے حکم میں ہے۔
(۲)تعریفات کے مواقع میں مستعمل قضایا مہملہ گو بہ ظاہر مہملہ ہیں ؛ لیکن وہ محصورہ کلیہ کے حکم میں ہوتے ہیں ، جیسے: العلمُ: إن کان إذعاناً للنسبۃ فتصدیق؛ وإلاّ فتصور۔ یہ قضیہ شرطیہ مہملہ ہے، اِس کا مطلب یہ ہے کہ، ہر وہ غ