Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

128 - 214
کی طرح ہے۔
	فائدہ: ایسے مقامات میں اِنْ اور اِذا   شرطیہ جو در حقیقت قضیۂ مہملہ(۱) کے لیے استعمال ہوتے ہیں ، کُلَّمَاکے مانند ( محصورہ موجبہ کلیہ کے لیے) استعمال کیے جاتے ہیں ، اِسی لیے مشہور ہے کہ: مُہمَلاتُ العُلومِ فِي حُکمِ المَحصُورَۃِ الکُلَّیَہِ(۲)۔
                                              
ـفيْ المعنَی فلابدَّ فیْہا منْ رابطٍ یَربِطُہا بالمُبتدأ…، وإِنْ کانتِ الجُملۃُ الواقعۃُ خبراً ہيَ المبتدأُ فيْ المَعنَی لمْ تَحتَجْ إلی رابطٍ…۔  
وَالمُفْرَدُ الجَامِدُ فَارِغٌ، وَإِنْ


یُشْتَقَّ فَہْوَ ذُوْ ضَمِیْرٍ مُسْتَکِنْ 
	تَقدَّمَ الکلامُ في الخبرِ إذا کانَ جُملۃً، وأمَّا المُفرد: فإمَّا أنْ یکونَ جامداً، أوْ((مقامِ تقسیم میں ’’او‘‘ برائے تنویع ہے)) مُشتقاً ((قضیہ شرطیہ منفصلہ غیر مانعۃ الجمع))؛ فإنْ((مقسم کے اقسام کو ذکر کرنے کے بعد کلمۂ ’’إنْ‘‘)) کانَ جامداً، فذکرَ المُصنِّف أنہٗ یکونُ فارِغاً مِن الضمیرِ، نحوُ: زیدٌ أخوْکَ…۔ وإنْ کانَ مُشتقاً فذکرَ المُصنف أنَّہ یَتحمَّلُ الضَّمیرَ، نحوُ: زیدٌ قائمٌ أيْ: ہُوَ۔ ہٰذا الحکمُ إذا لمْ یرفعْ ظاہراً، و((واؤ استینافیہ، برائے دفع دخل مقدر)) ہٰذاالحکمُ إنما ہوَ للمُشتقِّ الجاريْ مَجرَی الفِعلِ: کاسمِ الفاعلِ، واسمِ المفعول، وَالصفۃِ المُشبَّہۃِ، واسمِ التفضیلِ۔ ((شعر میں مذکور ’’یشتقُّ‘‘ کی ایک شق ’’جاری مجری الفعل ‘‘کو متعین کیا))، فأمّا مَا لیسَ جاریاً مَجرَی الفعلِ من المُشتقاتِ فلایَتحمَّلُ ضمیراً، وذلک کأسْمائِ الآلۃ، نحوُ: مفتاحٌ؛ فإنہٗ((الفاء للتعلیل))  مشتقٌ من الفتحِ ولا یتحملُ ضمیراً۔ (ابن عقیل۱؍۱۷۵)
	(۱) قضیہ حملیہ کی طرح قضیہ شرطیہ بھی (چاہے متصلہ ہو یا منفصلہ) محصورہ (موجبہ کلیہ، موجبہ جزئیہ، سالبہ کلیہ، سالبہ جزئیہ)، مہملہ اور شخصیہ ہوتا ہے۔ 
	قضیہ شرطیہ متصلہ و منفصلہ میں سے ہر ایک کا سور حسبِ ذیل ہے:
	[۱]متصلہ موجبہ کلیہ کا سور: کلما، مھما، متیاور اِن کے ہم معنیٰ الفاظ ہیں ۔ [۲]منفصلہ موجبہ کلیہ کا سور: دائما، ابداً اور اِن کے ہم معنیٰ الفاظ ہیں ۔ [۳]متصلہ ، منفصلہ سالبہ کلیہ: اِن کا سور  لیس البتۃ ہے۔ [۴]متصلہ، منفصلہ موجبہ جزئیہ : اِن کا سور،  قد یکون ہے۔ [۵]متصلہ، منفصلہ سالبہ جزئیہ: اِن کا سور،  قد لایکون ہے۔ 
	شرطیہ مہملہ: وہ قضیہ شرطیہ ہے جس میں مقدم پر حکم مطلق ہو، یعنی تمام حالات یا بعض حالات کا کوئی ذکر نہ ہو، جیسے: إذا کان الشيء انساناً کان حیواناً: جب کوئی انسان ہوگا تو وہ حیوان ہوگا، اِسی طرح ذکر کردہ مثال: إن کان (الخبر)، جامداً فیکون فارغاً من الضمیرِ، کہ ہر وہ خبر جو اسمِ جامد ہو تو وہ ضمیر سے خالی ہوگی، یہ قضیہ مہملہ ہے؛ لیکن محصورہ کلیہ کے حکم میں ہے۔
	(۲)تعریفات کے مواقع میں مستعمل قضایا مہملہ گو بہ ظاہر مہملہ ہیں ؛ لیکن وہ محصورہ کلیہ کے حکم میں ہوتے ہیں ، جیسے: العلمُ: إن کان إذعاناً للنسبۃ فتصدیق؛ وإلاّ فتصور۔ یہ قضیہ شرطیہ مہملہ ہے، اِس کا مطلب یہ ہے کہ، ہر وہ غ


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter