جیسے: کبریٰ کا جزئیہ ہونا، یا ناظر سمجھتا ہے کہ یہاں مصنف اپنے کلامِ سابق کی مخالَفت کررہے ہیں ، تو ایسے اعتراضوں کو رفع کرے۔
تاسع عشر: اگر مصنف نے جَمہور کی مخالَفت کی ہو تو اُس کی وجہِ عدول بیان کرے(۱)، اور جَمہور کا قول اگر سقیم ہوتو اُس کا سُقم بیان کرے۔ ہاں ! اگر وہ قول بھی صحیح ہو تو پھر دونوں قولوں کا وِفاق ظاہر کرے(۲)۔
عشرون: مصنف نے اختصاراً کوئی لفظ ترک کیا ہو، یا بھول سے رَہ گیا ہو اور وہ لفظ ایسا ہے کہ اگر اس کو ترک کیا جائے تو مطلب میں خلل پڑتا ہے تو اُس کو ذکر کردے، اور مصنف کی طرف سے معذرت کردے(۳)۔
(۱) تعریف میں وجہِ عدول کی مثال قاعدہ:۲ میں ’’وجہِ تسمیہ ووجہِ عدول‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔
(۲) العِلمُ: (الصورۃُ الحاصلۃُ عندَ العقلِ) إنْ کانَ إِذعاناً للنسبۃِ (اعتقاداً للنسبۃِ الخبَریَّۃ الثُّبوتیۃِ أوْ السَّلبیَّۃِ)، فَــ(ھُوَ) تَصدیقٌ؛ وَإلاَّ (إِن لمْ یَکنْ اعتقاداً للنسبۃِ الخبَرِیۃِ الثبوتیۃِ أوْ السَّلبیۃِ) فَـ’’تَصَوُّرٌ‘‘۔ وَیقتسمانِ (یأخذُ القِسمۃَ التَّصورُوَالتَّصدیقُ) بِالضرورۃِ (بالبَداہۃِ)، الضرورۃَ (البَدِیہیَ) وَالاکتسابَ بالنظرِ (النظري)۔
عبارت مذکورہ میں تصور وتصدیق کی تقسیم کے بابت ماتن علام نے نرالہ انداز اختیار کیا ہے۔ در اصل عام کتبِ منطق میں تصور وتصدیق کو ’’مقسم‘‘ بنایا ہے اور دونوں کی دو دو قسمیں ذکر کی ہیں : (۱)تصور بدیہی (۲)تصور نظری (۳)تصدیق بدیہی (۴)تصدیقِ نظری؛ لیکن ماتنِ علام نے ’’نظری‘‘ اور ’’بدیہی‘‘ کو مَقسم بنایا ہے اور تصور وتصدیق کو اُن کی قسمیں قرار دیا ہے، اور یہ اِس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ ماتنؒ نے فرمایا ہے: تصور وتصدیق یہ دونوں حصہ بانٹتے ہیں نظری اور بدیہی مقسم میں سے۔ گویا تقسیم اِس طرح ہوئی: بدیہی تصور، بدیہی تصدیق، نظری تصور، نظری تصدیق۔
دونوں تقسیموں کا خلاصہ ایک ہی ہے؛ لیکن ماتنؒ نے نظری وبدیہی کی تقسیم کرکے کنایۃً وہ تقسیم بیان فرمائی جس کو عام کتب منطق میں ذکر کیا ہے۔ وَہيَ أَبلغُ شأناً وأحْسنُ مَکاناً مِن التَّصریحِ ۔شرح تہذیب کے شارح نے دونوں تقسیموں کا ((وفاق)) بھی ظاہر کیا، اور حضرت ماتن علام کی تقسیم کی حیثیت بھی ظاہر فرمادی اور کلام مصنف کے ((فائدہ اور نکتہ)) کو بھی واضح کیا۔
(۳)مصنف نے اگر اختصاراً کوئی چیز چھوڑ دی ہو تو شارح پر ضروری ہے کہ وہ حضرت مصنف کی طرف سے معذرت پیش کرے، جیسے: شارح تہذیب ’’العلمُ إنْ کانَ اِذعاناً للنِّسبۃِ‘‘ کے موقع پر ماتن علاّم پر ہونے والے اعتراض -مقسم کی تعریف کیے بغیر تقسیم کو شروع کرنا باطل ہے -کے بابت عذر پیش کیا ہے:
’’ولم یَتعرَّضْ لتعریفہِ إما للإکتفائِ بالتصوُّرِ بوجہٍ مَّا فيْ مقامِ التَّقسیمِ، وَإمَّا لأنَّ تَعریفَ العلمِ مَشہورٌغ