اور حضرت تمیم داری کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو 11رکعات پڑھائیں۔
اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عُمرنےتَراویح کی 8 رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا ۔
جواب:
(1)―حدیثِ مذکورمیں رکعات کی تعداد کے بارے میں شدید اِضطراب پایا جاتا ہے،چنانچہ محمّد بن یوسف جو اِس حدیث کے مَدار ہیں اُن کے5 شاگرد ہیں ان میں سے تین شاگرد 11 رکعتوں کی روایت،ایک شاگرد 13 کی روایت اور ایک راوی 21 کی روایت نقل کرتے ہیں،لہٰذا یہ قابلِ اِستدلال نہیں ۔(اعلاء السنن:7/84)
(2)―یہ حدیث حضرت عُمرکے مشہور و معروف فیصلہ جوکہ احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے اُس کے سراسر خلاف ہے ،لہٰذا اِس مضطرب حدیث کی وجہ سے دیگر صحیح احادیث کو ترک نہیں کیا جاسکتا،یہی تو وجہ ہے کہ خود اِمام مالکجنہوں نے اپنی مؤطا میں اِس روایت کو نقل کیا ہے وہ خود اِس حدیث پر عمل پیرا نہیں ۔
(3) ―یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اگر حضرت عُمرکا 8 رکعات کا فیصلہ ہوتا تو بعد میں حضرت عُثمان اور حضرت علیبھی اُسی فیصلہ کی اِتباع کرتے ہوئے 8رکعات کے قائل ہوتے ،نیز صحابہ کرام کا بھی اِسی پر عمل ہوتا حالآنکہ سابقہ گزری ہوئی کثیر احادیث و روایات میں صحابہ کا عمل اِس کے بالکل خلاف یعنی بیس رکعات پر عمل کرنے کا ملتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ8رکعات تَراویح حضرت عُمرکا فیصلہ ہرگز نہیں تھا ۔
٭…………………٭…………………٭