تہجّد الگ چیز ہے۔
(3)ـــحدیثِ مذکور میں ایک سلام سے 4,4 رکعات پڑھنے کا معمول ذکر کیا گیا ہے جبکہ تَراویح ایک سلام کے ساتھ 2,2 رکعت پڑھی جاتی ہیں ، حتی کہ وہ لوگ بھی جو 8 رکعات تَراویح کے قائل اور اُس پر عمل پیرا ہیں وہ بھی ایک سلام کے ساتھ2 رکعت ہی پڑھتے ہیں ،گویا حدیثِ مذکور سے اِستدلال کرنے والوں کا خود بھی اس پر عمل نہیں تو وہ دوسروں پر کیسے اِس حدیث کو حجت کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔
(4)ـــحدیثِ مذکور میں نبی کریمﷺکا اِنفرادی طور پر 8رکعات پڑھنے کا ذکر ہے ، جبکہ تَراویح کی نماز مَساجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنے کا اِہتمام کیا جاتا ہے ،نیز نبی کریمﷺنے تین دن جو صحابہ کرام کو تَراویح پڑھائی ہے وہ بھی تو جماعت کے ساتھ ہی تھی،اِس لئے اِس حدیث کو تَراویح پر کیسے محمول کرسکتے ہیں ۔
(5)ـــجمہور مُحدّثین کے نزدیک یہ حدیث قیامِ رمضان (تَراویح)سے متعلّق نہیں ہے بلکہ اس کا تعلّق تہجّد کی نمازسے ہے ،یہی وجہ ہے کہ محدثین نے اِس حدیث کو اپنی کتابوں میں قیامِ رمضان کے اَبواب میں ذکر کرنے کے بجائے تہجد کے ابواب میں بیان کیا ہے۔شارِحِ بُخاری،محدّثِ کبیر ،حافظ الحدیث علّامہ ابنِ حجر عسقلانی نے بھی اِس حدیث کو تہجد ہی سے متعلّق قرار دیا ہے ۔(فتح الباری:3/21)
(6)ـــاگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ حدیثِ مذکور میں تَراویح کی آٹھ رکعات کو