اُمّت کیلئے باعثِ رحمت قرار دیا گیا ہے اُنہی کو نزاع و جدال کا باعث بنالیتے ہیں اور اُنہیں کچھ اِس انداز میں مُعاشرے میں پیش کرتے ہیں جیسے وہ کوئی اِسلام اور کُفر کا یا حق و باطل کا مسئلہ ہو،ظاہر ہے کہ اس سے اُمّت میں سراسیمگی کی کیفیت اور افرا تَفری کا سماں پیدا ہوتا ہے جویقیناً اِتّحادِ اُمّت کیلئےکسی زہرِ قاتل سے کم نہیں۔
اُنہی مسلکی اور فروعی اختلافات میں چند ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں نصوص اور روایات کےمُختلف ہونے کی وجہ سے فقہاء و محدّثین اور ائمہ و مجتہدین کے درمیان رائے اور اجتہاد کا اختلاف رہا ہے،لیکن اُن کی اختیار کردہ مختلف رائے سب قابلِ احترام اور لائقِ اتباع ہیں ، اُن میں سے کسی کو غلط اور باطل بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر باعثِ کُفر سمجھنا خود اپنی عاقبت کو خراب کرنے کے مترادف ہے ۔ہمارے زمانے کے کچھ غالی اور متشدّد لوگ اِس طرح کے فُروعی اختلافات میں اپنی رائے کو حَتمی اور قولِ فیصل کی حیثیت دیتے ہوئے دوسری رائے کو صرف غلط ہی نہیں بلکہ نماز کیلئے فساد و بُطلان کا ذریعہ قرار دیتے ہیں اور سادہ لوح عَوام کو یہ باوَر کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اِس کے علاوہ دوسرے طریقے کے مطابق نماز ہی نہیں ہوتی ،چنانچہ نماز میں رفعِ یَدین نہ کرنا ،اِمام کے پیچھے قراءت نہ کرنا اور آمین کو بلند آواز سے نہ کہنا یہ سب خدانخواہستہ ”نمازِ محمّدی“نہیں بلکہ یہ(مَعاذ اللہ!) اِمام ابوحنیفہکی وَضع کردہ ”نمازِ حنفی“ہے، اور لوگوں کو حنفی نماز نہیں بلکہ محمّدی نماز پڑھنی چاہیئے۔
دین کا ایک ادنیٰ سا طالبِ علم بھی اِس بات کو بخوبی سمجھتا اور اِس حقیقت کا اِدراک رکھتا ہے کہ ائمہ مجتہدین نےآیات ِ قُرآنیہ میں تدبّر، احادیث و روایات میں غور خوض اور تفکر و اِجتہاد کے ذریعہ جو مسائلِ فقہیہ کا اِستنباط اور اُس کی وَسیع و عَریض جُزئیات کا