اِسی طرح حضرت وائل بن حُجر ہی کی ایک روایت میں ہے:”فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ قَالَ:«آمِينَ» ثَلَاثَ مَرَّاتٍ“کے الفاظ مَروی ہیں،یعنی جب آپ
ﷺسورۃا لفاتحہ سے فارغ ہوئےتو تین مرتبہ آمین کہا ۔(طبرانی کبیر:22/22)
غور کیجئے !مذکورہ روایت کا اِس کے علاوہ کوئی مطلب نہیں کہ یہ تین مرتبہ آمین کہنالوگوں کو تعلیم دینے اوراُنہیں سکھانے کیلئے تھا ،پس جس طرح آپﷺکاخلافِ معمول ایک سے زائد مرتبہ آمین کہنا لوگوں کو سکھانے کیلئے تھا اِسی طرح خلافِ معمول آواز سے آمین کہنا بھی تعلیم و تلقین کیلئے تھا،کوئی مستقل عادتِ شریفہ نہیں تھی ،ورنہ ان روایاتِ جہریہ کے ہوتے ہوئے حضرت عُمر ،حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابہ کرام کے سراً آمین کہنے کا کیا مطلب ہوگا۔
(4)آمین کے زور سے کہنے کا مطلب بہت زیادہ اونچی آواز کے ساتھ آمین کہنا نہیں بلکہ اس سے”جہرِ خفیف“یعنی ہلکی آواز سے آمین کہنا مراد ہےجو سراً آمین کہنے کے خلاف نہیں ،اور اس کی تائید کئی روایات سے ہوتی ہے ،چنانچہ ابوداؤد شریف کی ایک روایت ہےجس میں نبی کریمﷺکے آمین کہنے کی کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے: ”حَتَّى يَسْمَعَ مَنْ يَلِيهِ مِنَ الصَّفِّ الْأَوَّلِ“یعنی آپﷺنے سورۃ الفاتحہ کے اختتام پر اتنی آواز سے آمین کہا یہاں تک کہ آپ ﷺسے متصل پہلی صف کے کچھ لوگوں نے سنا۔(ابواداؤد:934)
روایتِ مذکورہ میں”مِنْ“ تبعیضیہ یعنی بعضیت کو بیان کرنے کیلئے ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ”پہلی صف کےکچھ لوگوں نے سنا“پوری صف کے لوگوں کا سننا مراد نہیں ، کیونکہ اگر یہ تبعیض کیلئے نہ ہو اور مطلب یہ لیا جائے کہ پہلی صف کے تمام لوگوں نے