اس کا تعلّق اِمام اورمنفرد(اکیلے نماز پڑھنے والے)سے ہے،چنانچہ ترمذی میں حضرت جابر بن عبد اللہسے مَروی ایک روایت جس کو اِمام ترمذینےبھی صحیح کہا ہے اُس میں”إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الإِمَامِ“کی صراحت موجود ہے،یعنی ”سورۃ الفاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ،لیکن اگر اِمام کے پیچھے ہوں تو ہوجاتی ہے“۔ (ترمذی:313)
اور اِسی مذکورہ بالا حدیث کی وجہ سےاِمام احمد بن حنبلکابھی یہی اِرشاد ہے جسے
خود اِمام ترمذینے اپنی سنن میں نقل کیا ہے،مُلاحظہ کیجئے:
”مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ»،إِذَا كَانَ وَحْدَهُ، وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَيْثُ قَالَ:«مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ القُرْآنِ، فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الإِمَامِ» قَالَ أَحْمَدُ: فَهَذَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ»،أَنَّ هَذَا إِذَا كَانَ وَحْدَهُ“۔ (ترمذی:2/121)
ترجمہ:اِمام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے جو یہ اِرشاد فرمایا ہے
کہ:”اُس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۃ الفاتحہ نہ پڑھے“یہ اِرشاد اُس شخص کیلئے ہے جو منفرد یعنی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو۔اور اُنہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہکی حدیث سے اِستدلال کیا ہے،کیونکہ حضرت جابربن عبد اللہفرماتے ہیں : جس نے نماز پڑھی اور اُس میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی تو گویا اُس نے نماز ہی نہیں پڑھی، ہاں ! مگر یہ کہ وہ اِمام کے پیچھے ہو(تو نماز ہوجائے گی )۔اِمام احمد بن حنبلفرماتے ہیں کہ یہ دیکھیں نبی کریمﷺکے اصحاب میں سے ایک صحابی حضرت جابرنبی کریم