اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْقِرَاءَةِ مِنْ حَيْثُ كَانَ بَلَغَ أَبُو بَكْرٍ“۔(ابن ماجہ:1235)
ترجمہ:حضرت ابوبکر صدیقتشریف لائے اور لوگوں کو نماز پڑھانے لگے،رسول اللہﷺنے تکلیف میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا تو آپﷺدو آدمیوں کے سہارے مسجد میں اِس حال میں تشریف لائے کہ (کمزوری کی وجہ سے)آپ کے دونوں پاؤں سے زمین میں لکیر پڑرہی تھی،جب لوگوں نےآپﷺکو دیکھا تو (حضرت ابوبکر صدیقکو متنبہ کرنے کیلئے)”سُبحَان اللہ“کہا،حضرت ابوبکر صدیقپیچھے ہٹنے لگےتو حضورﷺنے اُنہیں اِشارہ کیا کہ اپنی جگہ ہی ٹہرو،حضورﷺحضرت ابوبکر صدیقکے پاس پہنچے اوردائیں جانب بیٹھ گئے،حضرت ابوبکر صدیق کھڑے ہوکرحضورﷺکی اِقتداء کرنے لگےاور لوگ حضرت ابوبکر صدیق کی اِقتداء کرنے لگے۔حضرت عبد اللہ بن عباسفرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اُسی جگہ سے قراءت شروع فرمائی جہاں حضرت ابوبکر صدیقپہنچے تھے۔
وضاحت:مسند احمد کی روایت کے مطابق آپﷺکی تشریف آوری کے وقت حضرت ابوبکر صدیقسورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ شروع کرچکے تھے،اور نبی کریمﷺ نے وہیں سے تلاوت شروع فرمائی ، گویا کہ آپﷺنےیہ نماز بغیر فاتحہ کے پڑھائی، کیونکہ وہ تو حضرت ابوبکر صدیقپڑھ چکے تھے۔اور یہ نبی کریمﷺکا آخری فعل ہےجس کا کوئی ناسخ نہیں ،چودہ صدیاں گزرچکی ہیں،آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ(العیاذ باللہ) آپﷺکی یہ نمازنہیں ہوئی ،کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق کے فاتحہ پڑھ لینے سےآپﷺکی سورۃ الفاتحہ بھی معتبر ہوگئی تھی،پس جس طرح حضورﷺکی یہ نماز فاتحہ کے بغیر ہوگئی اِسی طرح مقتدی کی نماز