اُس کے ساتھ کوئی سورت ملائے گا۔
(3)”عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الظُّهْرِ-أَوِالْعَصْرِ-فَقَالَ:أَيُّكُمْ قَرَأَ خَلْفِي بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى؟ فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا وَلَمْ أُرِدْ بِهَا إِلَّا الْخَيْرَ،قَالَ:قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ خَالَجَنِيهَا“۔ (مسلم:398)
ترجمہ:حضرت عمران بن حصینفرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریمﷺنے ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی،کوئی شخص آپ کے پیچھے ”سورۃ الأعلیٰ“پڑھنے لگے،جب آپ ﷺنماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:تم میں سے کس نےمیرے پیچھے سورۃ الأعلیٰ کی قراءت کی ہے؟،ایک شخص نے کہا کہ میں نےصرف خیر و بھلائی(یعنی ثواب) کی غرض سے قراءت کی ہے،آپﷺنے اِرشاد فرمایا:مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ تم میں سے کوئی مجھے خلجان(اُلجھن) میں ڈال رہا ہے۔
وضاحت:حدیثِ مذکور میں نبی کریمﷺنے اِمام کے پیچھے قراءت کرنے کو اِمام کیلئے خلجان کا باعث اور اُسے اُلجھن میں ڈالنے کے مترادف قرار دیا ہے ،اور اس سے عُموم کے ساتھ سورۃ الفاتحہ اوراس کے علاوہ دوسری تمام صورتوں کو اِمام کے پیچھے پڑھنے کی مُمانعت معلوم ہوتی ہے۔نیزاِس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرات صحابہ کرامکا معمول نبی کریمﷺکے پیچھے قراءت کرنے کا نہیں تھا ورنہ آپﷺ یہ سوال ہی نہ کرتے کہ تم میں سے کس نے میرے پیچھے قراءت کی ہے؟نیز صحابی کے یہ ذکر کرنے پر کہ میں نے اجر و ثواب کے حصول کیلئےآپ کے پیچھے قراءت کی ہے ، آپﷺنے اُسے خلجان کا باعث بتلایا ،جس سے اِمام کے پیچھے قراءت کرنے کی