بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
لِیُحِقَّ الحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ
باب-۱=ام المدارس دار العلوم دیوبند کے موسسین کا امتیازی وصف اور اُن کے مقاصد عالیہ
یہ امر ملحوظ رہنا ضروری ہے کہ۱۸۶۷ء میں قائم ہونے والے دار العلوم دیوبند کے مقاصدِ عالیہ جنہیں اُس کے بانیوں خصوصاً اِمامِ قاسم نانوتویؒ اورامام ربانی حضرت مولا نا رشید احمد گنگوہیؒ نے متعین فرما یا،مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ نے وضاحت کی،اور حکیمِ امت مجددِعصر و متکلم زمانہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒنے شرح فرمائی ، اُن مقاصدِ عالیہ سے دوسرے اداروں کو کوئی نسبت نہیں۔اِس بات کو اگر ایک فقرہ میں اداکیا جائے ،تو کہا جا سکتا ہے کہ موسسین ِ دیوبند کے ’’پیش نظرسوائے دین کے اور کچھ نہیں تھا۔‘‘اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ:
’’ مسلمانوں کو اس وقت؛بلکہ ہر وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے،وہ اُن کے دین کی حفاظت ہے،اور دنیا کی صرف اُتنے حصے کی جس کو دین کی حفاظت میں دخل ہو۔‘‘(دیکھئے امداد الفتاوی ج۶ ص۲۳۰)اِس مقصود کو پیش نظر رکھ کر، تعلیم کی راہ سے مسلمانوں کی ترقی کے لیے بنگال سے شروع ہونے والی پہلی کوشش( ۱۸۶۳) سے لے کر آج تک کے اداروں کا جائزہ لیجئے ،تو دیوبند کا فرق و امتیاز نظر آجائے گا اوریہ معلوم ہو جا ئے گا کہ جن مدارس نے اپنی فکر میںیا جن اداروں نے ’’اپنی تصنیفات و تا لیفات اور تراجم میں‘دین و دنیا دونوں کو جمع کرنا چا ہا ہے‘‘،(۱)ایسے اداروں کے لیے بروئے کار لائی جانے والی،یا اُن کے نمائندوں کی طرف سے پیش کی جانے والی تجویزیں اگر دیوبند میں روا رکھی جا ئیں گی،تو دیوبند دیوبند نہ رہے گا ۔یہاں ہم نہایت اختصار کے ساتھ دیوبند کے بعض اوصاف ذکر کرتے ہیں،حکیم الامت حضرت مولا نا اشرف علی تھانوی قدس سرہ فر ما تے ہیں:
موسسین نے’’مدرسہ دیوبند کی بنیاد ایسے خلوص سے رکھی تھی کہ اب تک اُس کا اثر ہے۔بڑے بڑے مدرسے دیکھے،مگر آخر کار کچھ بھی نہ دیکھا۔
مدرسہ دیوبند کی تعلیم کی بابت بڑے بڑے انگریزوں کی یہ تحریر ہے کہ اگر اِس مدرسہ کی مذہبی تعلیم میں دنیاوی تعلیم شامل کی گئی،تو اِس کا مذہبی خالص رنگ باقی
نہ رہے گا جو اِس مدرسہ کا مایۂ ناز ہے۔پھر فرما یا کہ مولا نا عبد الرحیم صا حب فرما تے تھے کہ مدرسہ دیوبند میں جمہوریت کی شان ہے۔اِس میں چاہے کوئی خاص
شخص نہ ہو ،مگر یہ باقی رہے گا۔چناں چہ اِس کی حفاظت کا کچھ مستقل انتظام نہیں؛جو کوئی اِس کی خدمت کرتا ہے،اپنے لیے کرتا ہے۔اِس کی حالت اسلام کی
سی ہے۔اگر کوئی بادشاہ بھی مسلمان ہو جا ئے،تو اپنے لیے اُس نے بہتری کی،اسلام کا کیا بڑھ گیا،کچھ بھی نہیں۔‘‘(ملفوظات حکیم الامت ،ج ۱۸ ص۲۳۳)
’’ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نے جلسۂ دستاربندی میں یہ مضمون فرما یا کہ اکثر لوگوں کو اِس مدرسہ کی حالت دیکھ کر خیال ہو گا کہ یہاں
علومِ معاش کا کچھ انتظام نہیں۔اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ مدرسہ اس لیے ہے ہی نہیں ،نہ ہم نے دعوی کیا کہ تمام علوم کی تعلیم ہو گی۔یہ تو صرف
اُن کے لیے ہے جن کو فکرِ آخرت نے دیوانہ بنا یا ہے‘‘(ملفوظات حکیم الامت ج ۱۸ حسن العزیز ج دوم ص۱۳۹)’’جس زمانہ میں ،میں مدرسہ دیوبند
میں پڑھا کرتا تھا،اُس وقت کے حالات و واقعا ت یاد آکر عجیب دل کی کیفیت ہو تی ہے۔...... اُس وقت بڑے بڑے اہلِ کمال کا اِجتماع
تھا،اور قریب قریب سب اپنے کو مٹائے ہوئے اور فنا کیے ہو ئے تھے۔جب کبھی اتفاق سے اِن حضرات کا اِجتماع ہو جاتا تھا،یہ معلوم ہوتا تھاکہ ہر بزرگ دوسرے کو اپنے سے بڑا سمجھتا ہے،بڑی ہی خیر کا مجمع تھا۔یہی حالت آپس میں طلبہ کی تھی۔.... اُس وقت کھلم کھلا نظر آتا تھا کہ مدرسہ پر
انوار کی بارش ہو رہی ہے ،اور یہ سب اِن حضرات کی مقبولیت کی علامت تھی۔اور ان حضرات کے تقوی و طہارت کے ثمرات تھے۔اور
مدرسہ کی مقبولیت کا اِس قدر جواثرساری دنیا پر ہوا.....کام جو کچھ ہوا،سب کو معلوم ہے کہ کیسے کیسے با کمال لوگ فارغ ہو کر نکلے۔‘‘
(ملفوظ ج ۱ ص۹۷)’’در و دیوار سے اﷲ اﷲ کی آواز یں آتی ہوئی معلوم ہو تی تھی۔‘‘(ملفوظ ج ۶ ص۲۸)’’جو بات ہمارے حضرات
------------------------------
حاشیہ(۱)جیسا کہ علامہ سید سلیمان ندوی نے دارالمصنفین کا منشور ذکر کرتے ہو ئے ،مذکورہ اعلامیہ شائع کیا تھا ،(ملاحظہ ہو ’معارف۔جون ۱۹۲۷،شذرات سلیمانی‘)اور یہی منشور ندوہ کا بھی مشہور ہے،دوسری طرف امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے مذکورہ موقف کو رد کرتے ہو ئے صاف طور پر فرما دیا تھا کہ:ع=ایں خیال است و محال ست و جنوں۔ )