معقولات و فلسفہ کی مخالفت کرنے وا لے ا پنی تائید میں مفتی محمدشفیع صاحبؒ کے بعض اقوال کا حوالہ دیتے ہیں؛اس لیے ا ِس موقع پرمفتی محمدشفیع صاحبؒ کی آپ بیتی لکھ دینا بھی فائدہ سے خالی نہیں۔حضرت مفتی صاحبؒاپنے زمانۂ طالب علمی کا واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ:
’’۱۳۳۲ھ۔جب احقر کی تعلیم میں یونانی فلسفہ کی کتاب میبذی کا نمبر آیا،تو مجھے والد محترم سے سنی ہوئی یہ بات یاد آئی کہ حضرت مولانا گنگوہی کی
رائے مدارسِ عربیہ میں یونانی فلسفی کی تعلیم کے خلاف تھی.....اُس وقت مجھے بھی تردد ہوا کہ یہ فن پڑھوں یا نہیں۔والدِ محترم -حالاں کہ حضرت گنگوہی سے
والہانہ عقیدت رکھنے والے تھے-مگر اُس وقت ایک دانشمندانہ فیصلہ یہ فرما یا کہ حضرت گنگوہی تو اِس وقت دنیا میں نہیں۔اُن کے بعد حضرت مولانا تھانویؒ کو آپ کا قائم مقام سمجھتا ہوں؛اس لیے مناسب یہ ہے تمہارے بارے میں اُن کے مشورہ پر عمل کیا جا ئے۔اِسی مقصد سے مجھے ساتھ لے کر تھانہ بھون کا سفر کیا۔
......حضرت مولانا تھانویؒ نے فرمایا ہاں مجھے معلوم ہے کہ اس معاملہ میں حضرت نانوتویؒ اور حضرت گنگوہی کی رائے میں اختلاف تھا۔......دونوں بزرگ
ہمارے مقتدا اور پیشوا ہیں،اِن میں سے جس کی را ئے پر بھی کوئی عمل کرے خیر ہی خیر ہے؛لیکن تمہارے متعلق میرا مشورہ یہ ہے کہ تم ضرور اِس فن کو پڑھو اور محنت
سے پڑھو۔‘‘
مفتی محمدشفیع صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’عمر کی یہ پہلی تعلیم تھی جوحضرتؒ سے حاصل کی،اور واپس آکر میبذی کا سبق شروع کیا،پھر صدرا ،شمس بازغہ وغیرہ فلسفہ کی تمام درسی کتابیں پڑھیں.....
۱۳۳۵ھ میں احقر کا دورۂ حدیث ہوا۔کچھ فنون کی کتابیں باقی تھیں جو ۱۳۳۶ھ میں پوری کیں۔‘‘(ملفوظات جلد ۲۴ ص ۲۳)
اس باب میں مفتی محمدشفیع صاحبؒ کاذکر اس لیے کیا گیا کہ بعض لوگوں نے فلسفۂ قدیمہ کی مخالفت میں مفتی محمدشفیع صاحب ؒکے نام کو بھی ڈھال بنایا ہے۔