مواقف اور علامہ جلال الدین دوانی مصنفِ شرحِ عقائد ،ملا جلال جو تینوں کے تینوں امامِ علمِ عقائد ہیں،علومِ مذکورہ میں
ایسے کامل ہیں کہ کاہے کو کوئی ہوگا!حضرت امام فخر الدین رازی،حضرت امام غزالی ،حضرت شیخ محی الدین عربی یعنی حضرت
------------------------------
=الاستدلال۔(ملفوظات جلد۲۹ص۱۷۴،۱۷۵)نوٹ= قضیہ مانعۃ الجمع کی وضاحت:دونوں باتوں کا ایک ساتھ جمع ہونا محال ہو؛مثلاًمثال مذکور میں مال لے کر چھوڑ دیا جا ئے،یایوں ہی تبرعاً چھوڑ دیا جائے،یہ دو نوں باتیںایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔لیکن ایک ساتھ اُٹھ سکتی ہیں۔یعنی یہ ہو سکتا ہے کہ نہ مال لے کر چھوڑا جائے اور نہ تبرعاً چھوڑا جائے؛بلکہ غلام بنا لیا جا ئے۔یہی مانعۃ الجمع کی حقیقت ہے۔ ٭ منفصلہ حقیقیہ:اِس میں دونوں باتوں میں سے کسی ایک کا ہو نا اور دوسری کا نہ ہو نا ضروری ہو تا ہے۔٭ مانعۃ الخلو: اِس میں ایک کا پا یا جا نا ضروری ہو تا ہے اور کبھی دونوں کا پا یا جانا بھی ممکن ہو تا ہے۔(ملفوظات جلد۲۹ص۱۷۴،۱۷۵)غلامی کے متعلق مذکورہ اعتراض Humanizationیا’’انسان پرستی ‘‘کے مغربی فلسفہ پر مبنی تھا،جس کا جواب درسیات میں اور منطق مین مہارت کی بنیاد پر آسانی سے فراہم ہو گیا۔اور اِس یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جو لوگ درسِ نظامی کے نصابِ تعلیم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ’’جو کتب مذہبی ہمارے یہاں موجود ہیں اور پڑھنے پڑھانے میں آتی ہیں،اُن میں کون سی کتاب ہے،جن میں فلسفۂ مغربیہ اور علومِ جدیدہ کے مسائل کی تردید،تطبیق، مسائل کی امورِ مذہبیہ سے کی گئی ہو؟‘‘(دیکھئے حیاتِ جاوید ص۲۱۵ تا ۲۱۸ )بالکل غلط کرتے ہیں۔اُن کا یہ سوال ناواقفیت پر مبنی ہے۔
حاشیہ(۱)اِس کی نہایت نمایاں مثال اپنے زمانہ میں خودحضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کا وجود تھا ۔ حکمت و فلسفہ اور فنونِ عقلیہ میں حضرت کے عبور اور مہارت کا یہ عالم تھا کہ رام پور میں اہلِ علم معقلیین کے بعض اتراضات سننے کے بعد خاص کیفیت میں حضرت مولانا نانوتویؒ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ بھی ادا کرائے گئے:’’لوگ گھر میں بیٹھ کر اعتراض کرتے ہیں۔اگر کچھ حوصلہ ہے تو میدان میں آجائیں،مگر ہرگز اِس کی توقع لے کر نہ آئیں کہ وہ قاسم سے عہدہ برآ ہو سکیں گے۔میں کچھ نہیں ہوں مگر جن کی جوتیاں میں نے سیدھی کی ہیں،وہ سب کچھ تھے۔‘‘(سوانحِ قاسمی ص۳۷۲)اور اب مابعد زمانہ میں حضرت قدس سرہ کی تحریریں ہیں ۔موجودہ زمانہ کے تمام اعتراض جو علوم جدیدہ،سائنس و عقلیات کی راہ سے پیدا ہوتے ہوں۔اُن شبہات کو دور کر نے کے لیے یہ تحریریں کا فی ہیں۔
شیخ اکبر رحمۃاﷲ علیہم اجمعین کا علوم مذکورہ میں کمال ایسا نہیں جو ادنی سے اعلی تک کسی پر مخفی ہو......}۔
مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ معقولات و فلسفہ نہ صرف مفید ہیں؛بلکہ علوم شرعیہ کے لیے معین ہیں اوردفاعِ اسلام کے باب میں اِن کی اہمیت سلف سے خلف تک تسلیم شدہ ہے۔اس لیے:
{’’ اگرنیت اچھی ہواور لیاقت کما ینبغی خدا داد موجود ہو،یعنی معلم و متعلم بغرضِ تشحیذِ ذہن،یا ردِّعقائدِ باطلہ،یااِظہار و
ظہورِ بطلانِ مسائلِ مخالفہ عقائدِ اسلام،یہ(علوم عقلیہ کا۔ف)مشغلہ اختیار کریں۔اور پھر دونوں میں یہ لیاقت بھی
ہو(کہ)معلم(مخالف عقائد۔ف)کے اِظہارِ بطلان پر قادر ہو اور متعلم دلائلِ اِبطال کے سمجھنے کی لیاقت رکھتا ہو،
تو بے شک تحصیلِ علوم مذکورہ داخلِ مثوبات و حسنات ہو گی۔}
یعنی منطق و فلسفہ کا حاصل کرنا عملِ نیک اور کارِ ثواب ہوگا۔اور ایسی صورت میں:
{......اِشاعتِ علوم ربانی اور تائیدِ عقائدِاحکامِ حقانی منجملہ سبیل اﷲ؛بلکہ سبیل اﷲ میں بھی اول درجہ کا(قرار پائے
گا۔ف)اس لیے کہ قوام و قیامِ دین بے علومِ دین اور تائیدِ علومِ دین وردِّ عقائدِ مخالفۂ عقائدِ دین متصور نہیں۔اگر
تمام عالم مسلمان ہو جائے،تو اعلائے کلمۃ اﷲ کی حاجت نہیں،پر علومِ دین کی حاجت جوں کی توں رہے۔‘‘
(قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نا نوتوی-احوال و کمالات......ص۶۶۶تا ۶۷۳ از جناب نور الحسن راشد)