نصاب میں معقولات سرے سے غائب ہیں،فلسفہ ہے ہی نہیں؛ایسی صورت میںیہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ فلسفہ کے بغیرکون سا علمِ کلام پڑھایا جائے گا اور کیا سمجھایا جائے گا؟اس پر ہدف یہ متعین کیا ہے کہ سات سال کے اِس نصاب کا محور،فقہ،اصول فقہ اور احادیث ہو ںگی،اور باقی علوم و فنون کا تعارف ہو گا۔اِس طرح دماغ بھی روشن ہو گا ا،دل بھی مطمئن۔پھر ذکر الٰہی کی چاشنی مل گئی ،تو اُسے حضرت تھانویؒ اور حضرت مدنیؒ بنا دے گی۔اِس سات سال کے بعد موصوف نے دو سال کا ایک اورمرحلہ تجویز کیا ہے :
’’طالب علم اِس میں کسی ایک فن پر عبور پائے گا،جیسے فقہ،حدیث،علم کلام،تفسیر یا ادب عربی۔‘‘
یہاں ، پھر وہی سوال ہے کہ دیوبند کے نصاب کے بغیر یعنی فنون میزانیہ،معقولات و فلسفہ کے بغیر علم کلام پر عبور کیوں کر ممکن ہے؟ہاں یہ سوا ل ہو سکتا ہے کہ علم کلام کے حوالہ سے موصوف کے پیش نظر ہے کیا ؟تواِس کا جواب اگلی تجویز سے مل جا ئے گا۔اگلی تجویز یہ ہے کہ عالم،فاضل ہونے والے افراد میں سے منتخب کرکے مختلف یونیورسٹیوں میں داخل کراکے’’قانون،سماجی علوم،اور پالیٹکس جیسے علوم میں پی.ایچ.ڈی کرادیں ۔ ....تاکہ وہ مولانا آزاد،مولانا حفظ الرحمٰن اور مولانا تقی عثمانی کی طرح مختلف میدانوں میں اسلام کی ترجمانی کا حق ادا کر سکیں۔‘‘
اُن کی یہ تجویز سب سے زیادہ حیرت میں ڈالنے والی ہے۔ نصابِ تعلیم اور علم کلام کی گفتگو ہو،اور آئیڈیل جناب ابو الکلام آزاد ہوں ۔فیا للاسف!
علامہ سید سلیمان ندوی نے گزشتہ صدی کے ربعِ اول میں جس کامیابی پر اِظہار تشکر کیا تھا کہ:
’’عربی مدارس کے نصابِ تعلیم میں تغیر و تبدل اور تجدید و اصلاح کا جو غلغلہ ندوہ نے آج تیس سال سے برپا کر رکھا ہے،مقام شکر ہے کہ
(قدیم )عربی مدارس...زبان کی خاموشی یا انکار کے ساتھ،عملاً دل سے وہ اِدھر آہستہ آہستہ آرہے ہیں۔‘‘
(معارف۔اپریل ۱۹۲۵ء۔شذرات سلیمانی حصہ دوم ص۷)
زبان کی خاموشی یا انکار کے ساتھ،عملاً دل سے اِدھر آہستہ آہستہ آنے والی صورت تو گزشتہ صدی کے نصف اول کی بات ہے؛آج اقرار و اعلان کے ساتھ اُس کی ترقی تو کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ نمونے بھی آپ نے ملاحظہ فرما لیے ؛کہ اس باب میں،اب ندوہ کی طرف سے آوازہ بلند کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی؛یہ کام منتسبینِ قاسم ہی کیے دے رہے ہیں۔