نے اُنہیں معقول و فلسفہ سے اور بھی دو ر کر دیا ۔یہ تو بات ہوئی تاریخ،ادب اور لٹریچر سے متعلق۔اب معقولات سے متعلق بھی کچھ عرض کرتا ہوں۔
باب۵=معقولات کے داخلِ درس ہونے پر اعتراضات(اشارات)
علامہ شبلی کو د رس ِنظامی کی خوبیوں کا تو اعتراف ہے ۔؛لیکن چند باتوں پر اُ نہیں شدید اعتراض ہے:
(۱)’’منطق و فلسفہ کی کتابیں تمام علوم کی نسبت زیادہ ہیں۔‘‘(۲)’’علم کلام جو آج مو جود ہے،اِمام غزالی او ر امام رازی کی باز گشت ہے۔لیکن اِن دونوں
بزرگوں نے علم کلام میں جس فلسفہ کو مخاطب بنایا تھا،وہی ارسطو کا فلسفہ تھا۔اِس بنا پر پانچویں صدی سے آج تک فلسفہ کے جو مسائل قبول یا رد کی حیثیت سے
علمی دائرے میںپھیلے ہوئے ہیں،وہ صرف فلسفۂ ارسطو کے مسائل ہیں۔‘‘(مقالات شبلی جلد ہفتم ص۱،۵)۔
شبلی کا عتراض نمبر ا، دیو بند کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔اِس طرز کو خیراباد مرکز نے ترقی دی تھی،دیوبندنے علومِ نقلیہ اور فنون عقلیہ دونوںکو ساتھ ساتھ پڑھانے کا طریقہ اختیار کر کے مذکورہ طرز میں اعتدال پیدا کر دیا تھا۔اعتراض نمبر ۲کا جواب یہ ہے کہ اِمام غزالی او ر امام رازی کے علم کلام کو چھوڑ کر مغربی اصولوں کو اختیار کرنے کے نتیجے میں جن شرعی حقائق اور عقلی اصولوں کا انکار خود علامہ شبلی کو کرنا پڑا؛اُس کے لیے ملاحظہ ہو’’ الکلام‘‘ ۔اور تحقیقی جواب مقالہ کی ابتدا میں دیا جا چکا ہے،وہاں ملا حظہ فرما لیا جائے۔رہی یہ بات کہ’’ فلسفہ کے جو مسائل قبول یا رد کی حیثیت سے علمی دائرے میں پھیلے ہوئے ہیں،وہ صرف فلسفۂ ارسطو کے مسائل ہیں۔‘‘یہ علامۂ موصوف کی جانب سے دیا گیا اتنا بڑا مغالطہ ہے کہ اِس سے زیادہ بھیانک مغالطہ کا تصور دشوار ہے،جن اہلِ علم کی نظر الامام محمد قاسم نا نوتوی ؒ کی تصنیفات خصوصاً تقریر دل پذیر،انتصار الاسلام اور تصفیۃ العقائد پر ہے،نیزحضرت تھانویؒ کی تصانیف خصوصاً ’’التقصیرفی التفسیر‘‘،’’بوادر النوادر‘‘،’’الانتباہات المفیدۃ‘‘،درایۃ العصمۃ الشطر الثالث اور ’’بیان القرآن ‘‘پر ہے،.....اُنہیں معلوم ہے کہ کسی بھی علامہ نے مذکورہ بالا بات لکھ کر علم کے نام پر کیا پیش کرنا چاہا ہے؟صرف مغالطہ پیش کرنا یا دھوکہ دینا۔ساری امت کو اُس صحیح راہ سے ہٹانا جہاں سے ہدایت مل سکتی ہے۔