حیثیت رکھتا ہے، فرماتے ہیں:’’اِن علوم و فنون کی توضیح و تعیین ضروری تھی ،آیا یہ وہ علوم ہیں جن کو حفاظتِ مذہب میں دخل ہے یا صرف وہ ہیں جو صرف مایۂ تفاخر و اِشتہار ہیں.....شق ثانی پر ضرورت ہی ثابت نہیں؛بلکہ بالعکس مضر ہو نے کا حکم ظاہر۔‘‘(امداد الفتاوی ج ۶ص۲۲۸)
کبھی مایۂ تفاخر و اِشتہار کا پہلو پیش نظر نہیںہوتا؛لیکن فکر میں صلابت وسلامتی کی کمی خطرہ پیدا کرتی ہے۔اِس سلسلہ میں محقق دریابادی کی حضرت تھانویؒ کے ساتھ ایک اور مراسلت ملاحظہ فر ما ئیے:
’’م=بعض وقت بڑی حسرت ہو تی ہے کہ کاش ہمارے علماء نے بھی یہود و نصاری کے دفاتر و اشعار کا مطالعہ کر لیا ہوتا،خدا جا نے کتنے موتی اِس سمندر
سے نکال لا تے۔‘‘
ا=مگر بعض کے ڈوب جا نے کا بھی ڈر تھا،اور جہاں یہ اندیشہ نہ ہو،میں بھی متفق ہوں۔‘‘(نقوش ص۴۳۵)
نوٹ:حضرت تھانویؒ نے یہاں جس اندیشہ کا اِظہار فرمایا ہے،اُس سے محقق دریا بادی خود کو بھی نہ بچا سکے۔اِس کے نمونے تفسیر ماجدی میں کثرت سے مو جود ہیں۔ موصوف سے،اِس باب میں جس درجہ بے احتیاطی ہو ئی ہے ،وہ تفسیر کا مطالعہ کر نے والے پر مخفی نہیں ۔اصل اِس باب میں وہ موقع اور ممانعت کا پہلو ہے جس کا لحاظ رکھا جا نا ضروری ضروری ہوتا ہے کہ:
’’اہلِ باطل کے اقوال وافعال وحالات میں گفتگو یا اُس پر مشتمل کتا بوں کا مطا لعہ قلب کے لیے سخت مضر ہے۔بہ ضرورتِ مناظرہ کبھی دیکھنا پڑے تو بھی
ضرورت سے تجاوز نہ ہو نا چا ہیے۔‘‘(ملفوظات ج ۲۴ص۲۳۵)
محقق در یابادی سے اِس باب میں حدود کی رعایت نہ ہو سکی اور انہوں نے اپنی تفسیر میں مفید اور مضر ہر قسم کے اقوال درج کر دیے ہیں۔افسوس ہے کہ لوگوں کو یہ دھوکہ ہو گیا ہے کہ جناب عبد الماجد دریابادی اپنی تفسیر میں ،چوں کہ قدیم تفسیروں کے حوالے دیتے ہیں،اوراُنہوں نے بیان ا لقرآن سے نہ صرف کثرت سے استفادہ کیا ہے ؛بلکہ اُس کے ترجمہ کو’’دلیلِ راہ‘‘بنانے کی بات خود کہی ہے۔نیزکتاب’’نقوش و تاثرات ‘‘میں مسلسل ۹ سال (۱۹۳۳سے۱۹۴۲)تک حضرت تھانویؒ کے ساتھ کی گئی وہ مراسلات بھی درج فرمائی ہیں جو تفسیری اصولوں کے سمجھنے اور اہل باطل کے تفسیری التباسات دور کرنے سے متعلق ہوئی ہیں؛اس سے لوگوں کو یہ خوش فہمی ہو گئی کہ انہوں نے اپنی تفسیر میں اُن باتوں کا لحاظ ضروررکھا ہوگا جن کا ذکر کتاب ’’نقوش و تاثرات ‘‘میں ہے،اور جن کا وعدہ اُنہوں نے حضرت تھانویؒ سے کیا تھا۔لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ تفسیر ماجدی حضرت تھانوی ؒکے ملاحظہ سے گزاری جا چکی تھی۔لیکن اِس کی حقیقت محض اِس قدر ہے کہ حضرتؒ نے صرف نصف پارہ ٔاول پر نظر فرماکر ،اُس پر مفصل استدراکات و اصلاحات فرمائی تھیں جو بڑی شدید نوعیت کی تھیں؛ لیکن مفسر کے رجحانات اُنہیں قبول کرنے سے رکاوٹ بنے،اور جن باتوں کو قبول کیاگیا،اُنہیں بھی خالص شکل میں نہیں؛بلکہ التباس فکری کے ساتھ۔
افسوس! حضرت تھانویؒ سے مراسلت اور تفسیری استفادہ سے لوگوں کو غلط فہمی ہوئی،اور اُنہوں نے اُسے بیان القرآن کی طرح اہلِ حق کے اصولوں پر کی گئی تفسیر سمجھ لیا،اور اہلِ سنت کا ترجمان، بیان القرآن ہی کی طرح ؛بلکہ الفاظ و ترکیب کی بندشوں کی اضافی خصوصیت قرار دے کر مع شیٔ زائدِِ خیال کرلیا ؛حتی کہ اُس میں نیچریت کا رنگ سر سید جیسا نہ ہونے کی بنا پر ایک نقاد نے ا پنی نا گواری ظاہر کرتے ہو ئے ،یہ کہہ دیا کہ:
’’ بیان ا لقرآن اور تفسیر ماجدی میں کیا کوئی فرق ہے؟‘‘(انقلاب ۱۷ اکتوبر ۲۰۱۱ ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی)
خیر! یہ سب معقولات سے پہلو تہی کا نتیجہ اورجدید تصورات سے آلود ادب اور تاریخ سے تلبث کے شاخسانے تھے۔محقق دریابادی نے معقولات و فلسفہ بڑی محنت سے پڑھا تھا؛فلسفہ اور نفسیات اُن کا خاص موضوع تھا؛لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جدید فلسفہ جو اگرچہ سائنس سے الگ ایک شی ہے؛لیکن وہ بھی سائنس کی فاسد بنیادوں ،اور ہدف (مذہب بے زاری)کی ہم آہنگی کے ساتھ اور سائنسی افکارکو قبول اور رد کی حیثیت سے مزید مقبول عام بنانے کی روش پر چلتا ہے،قدیم فلسفہ،اُس سے بالکل الگ چیز ہے۔قدیم فلسفہ سائنسی مقاصد اور اُن سے ہم آ ہنگ افکار کو پست خیالی سے تعبیر کرتا ہے۔محقق دریابادی نے قدیم فلسفہ درسیات کے مزاج کے ساتھ نہیں پڑھا تھا۔پھر جدید ادب سے وابستگی ،تاریخ کے مغربی اصولوں سے شیفتگی اور اُن اصولوں میں شبلی کی (جزوی ہی سہی)اطاعت