باب-۴=نصابِ تعلیم(اشارات)
یہ حضرات -جو سلف کے دفاعِ اسلام کے اصولوں سے مطمئن نہیں ہیں-حضرت نانوتوی کے رائج کردہ نصابِ درس سے ،ابتدا ہی سے مطمئن نہیں ہیں۔ خود انہوں نے جدیدادب،تاریخ،علوم جدیدہ اور سائنس کے حوالہ سے کیا کارنامے انجام دیے؟ڈاکٹر سید عبد ا ﷲ کہتے ہیںکہ ادب اور تاریخ کے حوالہ سے
’’ہمارے ملک میںسر سید ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے فکر و ادب میں روایت کی تقلید سے ہٹ کر آزادیٔ رائے اور آزاد خیالی کی رسم جاری کی
اور ایک ایسے مکتب کی بنیاد رکھی جس کے عقائد میں عقل،نیچر،تہذیب(یعنی مغرب زدہ قوانین فطرت کے زیر اثر سائنسی تہذیب۔ف)اور
مادی ترقی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔سر سید نے اردو ادب کو جو ذہن دیا،
اُس کے عناصرِ ترکیبی کی اگر فہرست تیار کی جا ئے،تو اُس کے بڑے بڑے عنوان ہوں گے:مادیت،عقلیت،اجتماعیت اور حقائق نگاری۔سر سید
کے مجموعی فکر و ادب کی عمارت انہی بنیادوں پر قائم ہے۔....اِن رجحانات سے اردو کا سار ادب اُن کے زمانے میں متاثر ہوا،اور ایک معمولی
سے ردعمل سے قطعِ نظر آج کا مجموعی عمل اور فکری رجحان بھی اُسی سلسلۂ فکر و عمل کی ارتقائی شکل ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر سید عبد اﷲ نے جس ردعمل کو’’ معمولی سا ردعمل‘‘ کہا ہے وہ کیا حضرت نانوتوی،حضرت تھانوی وغیرہما یعنی مکتبِ دیوبند کا رد عمل ہے؟جہاں تک
تاریخ کی بات ہے تو ’’شبلی نے سیرۃ النبی کے مقدمہ میں.... وہ اصول ہیں جس کی جڑیں سر سید کی تحریروں سے ابھر کر باہر پھیلی ہیں۔‘‘لکھنے والے نے یہ تو لکھا کہ’’... سر سید کے نظریۂ علم کا رشتہ ڈیکارٹ اور اسپنوزاجیسے عقلیین کے مقابلہ میں بیکن،لاک اور مل جیسے تجربیین تک پہنچتا ہے۔‘‘لیکن ،یہ نہ لکھا کہ سائنس اور سائنسدانوں کے ساتھ سر سید کا یہ رشتہ محض تقلید اور اتباع کے درجہ میں ہے ، اس لیے سائنس کے دریافت کردہ اصول اور قوانین پرتنقید،تبصرہ،یا معیار صحت کو جانچنا بھالنا، ان کی سطح سے آگے کی چیز تھی۔
ندوہ کے’’ہمارے علوم وفنون‘‘کے منشور۔ پر حضرت تھانویؒ کا تبصرہ یہ تھا:’’اِن علوم و فنون کی توضیح و تعیین ضروری تھی ،آیا یہ وہ علوم ہیں جن کو حفاظتِ مذہب میں دخل ہے یا صرف وہ ہیں جو صرف مایۂ تفاخر و اِشتہار ہیں.....شق ثانی پر ضرورت ہی ثابت نہیں؛بلکہ بالعکس مضر ہو نے کا حکم ظاہر۔‘‘