’’۱۸۵۷ء کے انقلاب نے مسلمانوں کے شعور کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ایک نے دو حرف لا الٰہ(الا اﷲ محمد رسول اﷲ)کے سہارے
دیوبند میں قومی آزادی کاقلعہ تعمیر کیا۔دوسرے نے لیس للانسان الا ما سعیٰ پر یقین رکھتے ہو ئے دنیاوی وسائل کو کما حقہ استعمال کیا،اور علی گڑھ
میں مسلمانوں کے لیے پناہ گاہ تعمیر کی،جہاں سے وہ اپنی نئی زندگی کا سفر شروع کر سکیں۔ان میں ایک شعور کی رہنمائی مولانا قاسم صاحب ؒفر ما رہے
تھے،اور دوسرے شعور کی سر سید علیہ الرحمۃ۔سر سید چا ہتے تھے کہ جو انقلاب یقینی ہے،اُس کی زد میں آنے سے کیا فا ئدہ؟جس سیلاب کا رخ
نہیں موڑا جا سکتا،اُس سے بچنے کے لیے کشتی کی تعمیر کر نی چا ہیے۔‘‘(علی گڑھ میگزین ص۲۶۴)
عجب حیرت کی بات ہے۔تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ سر سید نے سیلاب سے بچنے کے لیے کشتی تعمیر کی،حالاں کہ سر سید کی کاوشوں کے نتیجہ میں صورتِ حال جو کچھ سامنے آئی ،وہ یہ تھی کہ اُنہوں نے کشتی تعمیر کر نے والوں کی مخالفت کی،اور سیلاب میں خودبہتے چلے گئے،اور مسلمانوں کو بھی بہا لے گئے۔بقول حضرت تھانوی کے لاکھوں لوگوں کے ایمان برباد کر دیے۔فاضل مضمون نگار مزید لکھتے ہیں،علی گڑھ کا لج کے لیے:
’’سر سید نے بارہا چا ہا کہ مولانا طلباء کی دینی تربیت کریں،اور دنیاوی وسائل فراہم کرنے کا بوجھ مجھ پر چھوڑ دیں ۔مگر مولانا نے فرمایا:’’ایلوے میں
کتنا ہی شہد کیوں نہ ڈالو،وہ میٹھا نہیں ہو سکتا‘‘مگر نباضِ وقت کا فیصلہ تھا کہ اِس مرض کا علاج ایلوا ہے اور صرف ایلوا ہے،اُس کو شہد ڈال کر گوارا بنایا
جا سکتا ہے....‘‘( ایضاًص۲۶۴)
گوارا بنانے کے نام پر اُنہوں نے بنیادی عقائد اور ضروریاتِ دین تک کا انکار کیا،نصوص میں ایسی تاویلات کیں جن سے مغرب کے فاسد و باطل اصولوں کی ہم نوائی حاصل ہو جائے۔ سرسید کی یہ روش تھی جس پر حضرت نانوتوی نے فرما یا تھا کہ :سر سید ’’کے اندازِ تحریر سے یہ بات نمایاں ہے کہ اپنے خیالات کو ایسا سمجھتے ہیں کہ کبھی غلط نہ کہیں گے۔‘‘(تصفیۃ العقائد ص۱۳)
شعور کی اس تقسیم کا احساس کر لینے کے بعدڈاکٹر عبید ا ﷲ فہد کی شکایت اور علماء پر اِلزام بالکل بے بنیاد ثابت ہو تا ہے۔
شعور کی جس ترقی کو حضرت نانوتویؒ نے تنزُّل سے تعبیر فرما یا تھا،وہ بتدریج زیادہ قوت و شدت پکڑتی گئی۔اِس ترقی کے لیے،جب یہ محسوس ہوا کہ مسلمانوں کے دینی عقائد و خیالات سدِّ راہ ہیں،تو انہوں نے اُن افکار و عقائد کی بھی مخالفت کی،اور اب سر سید کا خیال یہ ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کی پستی کا سب سے بڑا سبب مسلمانون کا اپنی قدروں کو سینے سے لگائے رہنا،جدید تہذیب سے کنارہ کشی کرنا،اورعقائد،معاشرت اور جذبات کو سائنس اور علومِ جدیدہ کے اصولوں پر نہ ڈھالنا تھا۔ ایسی چیزوں کو وہ توہم پرستی کہتے تھے،اور ریشنلزم،ریلزم اور یوٹیلٹی کو وہ ’’عقلیت ‘‘کا نام دیتے تھے۔
حضرت نانوی ؒ کے زمانہ میں تو علی گڑھ کی کو شش کی یہ نوعیت تھی یہ کیفیت تھی ۔البتہ ،سید محمود کے زمانہ میں دینی لحاظ سے علی گڑھ میں سرسید والی فضا نہ رہی ؛بلکہ حالات میں کسی قدر تبدیلی ہوئی ۔ اورجب وقارالملک کالج کے سکریٹری ہوئے،توچوں کہ اُنہیں دین کی طرف نہایت زیادہ توجہ تھی اورسر سید کی طرح وہ علماء کی اصلاح کے درپے نہیں تھے اور نہ ہی اسلام میں تبدیلی اور تشکیلِ جدید کے روادار؛بلکہ یہ چاہتے تھے کہ انگریزی خواں طلبہ کے خیالات اور عقائد درست ہوں اور علماء سے ان کو نفع پہنچے ۔چناں چہ اُنہوں نے اپنی ٹرسٹی شپ اور سکریٹری شپ کے دور میں علی گڑھ کالج کو صحیح سمت دینا چاہا،اور یہ واقعہ ہے کہ اپنے فہم و اِخلاص کے نتیجہ میں اُنہیں اپنی کاوش میں خاطر خواہ کامیابی بھی ملی۔یہی وہ دورہے جب حکیم الامت حضرت تھانوی ؒسے علی گڑھ کالج میں وعظ کی درخواست کی گئی ہے، تو حضرتؒ نے وہاںوعظ فرمایا،اور اُن کی اصلاح و ہدایت کے لیے ’’الانتباہات المفیدۃ عن الاشتباہات الجدیدۃ ‘‘ جیسی کتاب تصنیف فر مائی،اور اُنہیںتجاویز اور مشورے بھی دیے۔افسوس ہے کہ اُن تجاویز اور مشوروں پر عمل نہ کیاگیا۔