تنبیہ: مگر یہ سب آدابِ مذکورہ شیخِ کامل کے ہیں، اس کی چند علامات بتلائی جاتی ہیں، جس سے طالب دھوکے سے بچا رہے:
۱۔ خواص یعنی ۔ُعلما و ۔ُفقرا کے نزدیک اس کی قبولیت زیادہ ہو بہ نسبت عوام کے۔
۲۔ اس کی صحبت میں یہ اثر ہو کہ توجہ الی اللہ میں زیادتی اور خیالاتِ دُنیوی میںکمی معلوم ہوتی ہو۔
۳۔ اس کا کلام بزرگانِ پیشین کے کلام کے مشابہ ہو۔
۴۔ کسی کامل کی جانب سے اجازت یافتہ ہو۔
۵۔ متقی ہو، یعنی دلائلِ شرعیہ صحیحہ صریحہ کے خلاف کسی فعل پر اصرار نہ ہو اور احیاناً لغزش ہوجانا منافیٔ کمال نہیں۔ اور اگر بہ ظاہر کوئی قول یا فعل مخالفِ شرع سر زد ہوتا ہو اس کی توجیہ وتاویل موافق قواعدِ شرعیہ کے ممکن ہو۔
اگر ان اوصاف کا جامع کوئی شخص مل جائے تو اس کو غنیمت سمجھے اور دِل سے اس کا غلام بن جائے، ورنہ اس سے علیحدگی اختیار کرے، خصوصاً قرآن و حدیث کے خلاف کرنے والے سے ہرگز مجالست و مخالطت نہ کرے کہ صحبت اس کی برہم کنِ دِین و ایمان ہے۔
قال العارف الرومي ؒ :
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست
پس بہ ہر دستے نباید داد دست
کار شیطان می کند نامش ولی
گر ولی این ست لعنت بر ولی1
قال العارف الشیرازي ؒ :
نخست موعظت پیر این طریق ایں است
کہ از مصاحب ناجنس احتراز کند2
ف: اسی طرح شکر میں داخل ہے: تمام اہلِ حقوق کے حقوق ادا کرنا، باپ، ماں، اولاد، چچا، ماموں، میاں، بی بی، پڑوسی،