کسی نے حضرت شیخ نصیر آبادی سے کہا کہ لوگ عورتوں کے پاس بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے دیکھنے میں ہماری نیت پاک ہے۔ انہوں نے فرمایا:
مادامت الاشباح باقیۃ فان الامر والنھی باق والتحلیل والتحریم مخاطب بہ (قشیریہ)
(جب تک جسم انسانی باقی ہے امر و نہی بھی باقی ،اور تحلیل وتحریم کے ساتھ مخاطب ہے)
اور غضب یہ ہے کہ بعض اس کو ذریعہ قرب الٰہی سمجھتے ہیں، خدا کی پناہ۔ اگر معصیت ذریعہ قرب الٰہی کا ہو تو سارے رنڈی بھڑوے کامل ولی ہوا کریں۔ اور یہ جو مشہور ہے کہ بدون عشق مجازی کے عشق حقیقی حاصل نہیں ہوتا اوّل تو یہ قاعدہ کلیہ نہیں ،دوسرے عشق حلال موقع پر بھی ہوسکتا ہے۔ صرف نکتہ اس قاعدہ میں یہ ہے کہ عشق مجازی سے قلب کے تعلقات متفرقہ قطع ہوجاتے ہیں اور نفس ذلیل ہوجاتا ہے۔ اب صرف ایک بلا کو دفع کرنا رہ جاتا ہے اس کے دفع کرتے ہی کام بن گیا۔ سو یہ غرض تو اولاد ،بی بی، گائے، بھینس ہرچیز کے ساتھ زیادہ محبت کرنے سے حاصل ہوسکتی ہے، غیر عورت اور امرد کی کیا تخصیص ہے۔ اور اگر اتفاقاً بلااختیار کہیں دل پھنس ہی گیا تو اس وقت مجازی سے حقیقی حاصل ہونے کیلئے یہ شرط ہے کہ محبوب اور محب میں دوری ہو ورنہ وصل وقرب میں تمام عمر اسی میں مبتلا رہے گا۔ اسی لئے مولانا جامیؒ فرماتے ہیں ؎
ولی باید کہ درصورت نمانی
وزین پل زود خود را بگذرانی
یہاں تو ہر روز نیا معشوق تجویز ہوتا ہے، بقول شاعر ؎
زن نو کن اے یار در ہر بہار
کہ تقویم پارینہ ناید بکار
حظوظ نفسانیہ ولذات شہوانیہ حاصل کرنے کیلئے بزرگوں کے اقوال کو آڑ بنا رکھا ہے اور دل کا حال اﷲ کو خوب معلوم ہے اور خود ان سے بھی پوشیدہ نہیں۔ انصاف اور حق پرستی ہو تو سب کچھ امید ہے