ناکامی بھی کامیابی ہے، چنانچہ انہوں نے اپنے اس پروگرام کے اعلان و اظہار سے یقینا بہت سارے مقاصد و منافع حاصل کرلئے ہوں گے، مثلاً:
۱… انہوں نے اس جشن کے نام پر حسب معمول خوب چندہ اور فنڈ اکٹھا کیا ہوگا۔
۲… انہوں نے اس کے ذریعے اپنے ناپاک وجود کا احساس اور اپنی نام نہاد کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹا ہوگا۔
۳… اس کے ذریعے اپنی جھوٹی شہرت اور مظلومیت کا پروپیگنڈا کیا ہوگا۔
۴… اپنے آقائوں اور سرپرستوں کو باور کرایا ہوگا کہ ہمارے ساتھ امتیازی اور غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے جشن ِ خلافت پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
۵… انہوں نے ’’خلافت‘‘ کے نام پر دنیا بھر کی سیدھی سادی عوام اور مسلم اکثریت کو دھوکا دیا ہوگا اور اس کے ذریعے اپنے آپ کو مسلمان باور کرانے کی کوشش کی ہوگی۔
۶… اپنے جاہل کارکنوں اور بھولے بھالے قادیانیوں کو مطمئن کرکے اپنی یا ان کی سیاسی پناہ کا جواز تلاش کیا ہوگا۔
۷… اس کی بدولت انہوں نے لاتعداد کارکنوں کو مختلف ممالک میں سیاسی پناہ دلائی ہوگی۔
۸… رائل فیملی، خصوصاً قادیانی سربراہ مرزامسرور احمد کی پاکستان سے بھاگ کر برطانیہ جا بیٹھنے کی حکمت عملی سمجھائی ہوگی۔
۹… بہت سارے نوجوانوں اور سیدھے سادے مسلمانوں کو اپنے خلاف روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کے نام پر اپنا ہم نوا بنایا ہوگا، ان سے بیعت فارم پُر کروایا ہوگا اور ان کو یورپ، افریقہ اور امریکا وغیرہ ایسے ممالک میں سیاسی پناہ دلاکر اپنا کمیشن کھرا کیا ہوگا۔
۱۰… اپنی روایتی بزدلی پر پردہ ڈالا ہوگا، اور اپنی زیر زمین سرگرمیوں کا جواز تلاش کیا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
الغرض قادیانی امت: ’’بے حیاء باش ہرچہ خواہی کن‘‘ کے مصداق ایسی بے باک اور فاطر الحیاء ہے کہ وہ ہر ذلت سے عزت اور ہر شکست سے فتح اور ہر خسَّت سے شرافت اور ہر خفت سے عظمت کا مفہوم نکال لیتی ہے۔ شاید ان کے وجود و بقا کا راز ہی اسی میں ہے، اور کیوں نہ ہو کہ ان کا ابا مرزا غلام احمد قادیانی محمدی بیگم سے نکاح کی جھوٹی پیشینگوئی کو اپنی صداقت کا نشان قرار