الہاماً بتایا ہے کہ: ’’Friday The Tenth.‘‘ اس کا ترجمہ اور مفہوم خود ہی بتایا کہ جمعہ کا دن ہوگا اور ۱۰ تاریخ۔ اس دن جماعت کے حق میں کوئی خاص واقعہ ہوگا اور یہ ابتلاء ختم ہو جائے گا۔ اب پوری جماعت اس امید پر کیلنڈروں کے پیچھے پڑگئی کہ دیکھتے ہیں کہ اس سال میں کون سے مہینے میں ۱۰ تاریخ کو جمعہ کا دن ہوگا۔ ہر سال چند جمعے ضرور ۱۰ تاریخ کو ہوتے۔ چنانچہ ہر سال کیلنڈر پر ۱۰ تاریخ اور جمعہ کے دن نشانات لگا دئیے گئے۔ اس وقت پر آس لگائے جماعت مہینے اور سال گزارنے لگی۔ مرزا طاہر صاحب کی طرف سے بار بار اس کی یادہانی ہو جاتی۔ اور جماعت پورے یقین اور ایمان کے ساتھ اس وقت کا انتظار کرنے لگتی کہ یقینا آئندہ ۱۰ تاریخ والے جمعہ کو ضرور کوئی معجزہ ہوگا۔ جب ۱۹۸۴ء سے ۱۹۸۸ء تک کوئی واقعہ رونما نہ ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کاواقعہ بھی ۱۷ اگست بدھ کے دن ہوا تو جماعت میں مایوسی پھیل گئی۔ اس بات پر ضرور غور کیا جائے کہ ۱۹۸۴ء تا ۱۹۸۸ء چار سال تک مسلسل جماعت شدت کے ساتھ آس و انتظار میں رہی ۱۹۸۸ء میں کسی نے مرزا طاہر احمد کے ’’الہام‘‘ کے پورا نہ ہونے کی خفت کو مٹانے کے لیے ایک نیا آئیڈیا دیا کہ اس الہام سے مرار سورۃ الجمعہ کی دسویں آیت بھی ہوسکتی ہے۔ پھر اس کے ترجمہ اور تشریح پر کچھ خطبے آگئے اور جماعت کو ایک نئی لائن پر لگا دیا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ اب مرزا طاہر صاحب کا خود بھی اس ’’الہام‘‘ سے ایمان اٹھ گیا ہے اور اس کے پورا ہونے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔
آج اس ’’الہام‘‘ کو ۱۶ سال کا عرصہ گزر چکا ہے سینکڑوں قادیانی اس الہام کے پورا ہونے اور کسی معجزے کے ظہور کے انتظار میں اس دنیا سے گزر گئے۔ اور باقی بھی انشاء اللہ اس الہام کی گرمی سے محظوظ ہوتے ہوتے چلے جائیں گے۔
یہ کیسا الہام ہے یا کیسا معجزہ ہے جو ۱۶ سال کا عرصہ لے جائے یہ قوم کے ساتھ سراسر ایک ’’الہامی مذاق‘‘ ہے۔ یہ حالت اس الہام کے دو نمبر ہونے کو واضح کر رہی ہے۔ (اوصاف ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۰ئ)
(۱۰) … انسانی حقوق اور قادیانی جماعت
۱۹۷۴ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا اس فیصلے سے قبل قادیانی جماعت کے اس وقت کے سربراہ مرزا ناصر احمد صاحب کو اپنا موقف پیش کرنے کا پورا پورا موقع دیا گیا۔ کئی دن تک جماعت نے تفصیل سے زبانی اور تحریری طور پر اپنا موقف پیش کیا اس کے بعد قومی اسمبلی کے ممبران نے فیصلہ کیا۔ ۱۹۸۴ء میں جنرل ضیاء