M
الحمدﷲ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
بلاشبہ ہر انسان اپنی خواہش و آرزو کی تکمیل و تحصیل پر خوش اور ناکامی و نامرادی پر مغموم و محزون ہوتا ہے، لیکن عجیب بات ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی اولاد و ذریت اس فطری اصول سے ہٹ کر اپنی کسی ناکامی کو ناکامی نہیںسمجھتی، بلکہ وہ ا پنی ہر بدقسمتی اور حرماںنصیبی پر خوشی کے شادیانے بجاتی اور جشن مناتی ہے، قادیانی تاریخ کا جائزہ لیجئے تو گزشتہ سو سال سے وہ اس پر عمل پیرا ہے۔
گذشتہ سو سال سے قادیانی امت کو کس قدر اور کتنی بار ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا؟ کسی سے مخفی اور پوشیدہ نہیں، اس کی تفصیلات طویل بھی ہیں اور وقت طلب بھی، مگر بہرحال انہوں نے ہمیشہ اس ذلت و رسوائی کو اپنے لئے باعث عزت و افتخار سمجھا، شاید ان کا خیال ہوگا کہ: بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟
کچھ اسی طرح کا معاملہ اس بار بھی ہوا کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے قادیانی میڈیا پر یہ خبر بڑی شدّ و مدّ سے سرگرم تھی کہ قادیانی امت ۲۶؍مئی ۲۰۰۸ء کو مرزا غلام احمد قادیانی کی موت کے بعد مرزائی خلافت کے سوسال پورے ہونے پر ’’جشن خلافت‘‘ منارہی ہے اور وہ اس کی بھرپور تیاری میں مصروف ہے ۔
’’جشن خلافت‘‘ کا پس منظر یہ ہے کہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو مسیلمہ پنجاب اور کذابِ قادیان مرزا غلام احمد قادیانی وبائی ہیضہ کے عذاب میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوگیا تھا، موت کے بعد اس کی خلافت کی گدی پر، اس کی نامردی کے معالج و مرید ِ خاص حکیم نورالدین بھیروی کو بٹھایا گیا۔ جو اس کا جانشین و خلیفہ قرار پایا،یوں اس وقت سے اب تک قادیانی خلافت کا سلسلہ جاری ہے۔ چونکہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء سے ۲۶؍مئی ۲۰۰۸ء تک قادیانی خلافت کو پورے سو سال ہوگئے ہیں، اس لئے قادیانی ’’جشن خلافت‘‘ منانا چاہتے تھے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ اپنے اس منصوبے اور پروگرام میں ناکام ہوگئے اور وہ جشن خلافت نہیں مناسکے ،مگر بہرحال ان کی ناکامی