گائوں کریم پورہ میں ایک چھوٹی مسجد ہوا کرتی تھی اب وہاں تین مساجد، تین مدرسے بن چکے ہیں۔ باقاعدہ قاری اور تعلیمی کلاسیں جاری ہیں قریب ہی ایک چھوٹا سا محلہ ہے جس میں ایک بڑا سا مدرسہ بن چکا ہے پہلے وہاں ایک ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہوا کرتی تھی جس میں ہم چھٹی، ساتویں کلاس میں نماز پڑھنے کے لیے جایا کرتے تھے اب وہاں ایک بڑی مسجد، مدرسہ بن چکا ہے۔ (مدرسہ کریمہ اسلام پورہ) قریبی گائوں پھلاٹیاں، آئمہ جٹاں، حاجی آئمہ، آئمہ کوٹلہ، کوٹلی اللہ یار، چھتہ، جادہ، ڈھوک فردوس وغیرہ وغیرہ میں ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کئی مسجدیں اور مدرسے بنے اور آباد ہوئے دنیاوی تعلیم کے مدرسے سکول، کالج کی ترقی تو روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
مذکورہ بالا ساری مذہبی اور علمی ترقی کی بدولت آج مسلمانوں میں جذبہ جہاد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور دنیا کی سپر طاقت سے ٹکرا سی مذہبی جذبہ کا نتیجہ ہے۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۶ دسمبر ۲۰۰۰ئ)
(۲۵) … متعصب قادیانی ہیں یا مسلمان؟
۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران قادیانیوں کو مسلمانوں کی طرف سے خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر چھوٹے بڑے نے قادیانیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا۔ کیونکہ مسلمان علماء نے تحریر و تقریر سے مسلمانوں کو باور کروایا کہ قادیانی گستاخ رسول ہیں۔ لہٰذا ان کے ساتھ میل جول رکھنا اور کسی قسم کا تعاون کرنا گویا اسلام کو نقصان پہنچانے والوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ بہت سے شہروں میں قادیانیوں کا سوشل بائیکاٹ بھی کیا گیا۔ قادیانی کارخانوں سے تیار ہونے والی اشیاء کا بائیکاٹ بھی کرنے کا کہا گیا۔
اس تحریک کے دوران تعصب ’’متعصب‘‘ کا لفظ بہت سننے میں آیا۔ ہر قادیانی کی زبان پر ہوتا کہ فلاں دوست بڑا متعصب ہے۔ یعنی قادیانیوں کو کافر سمجھتا ہے یا نفرت کرتا ہے، فلاں متعصب نہیں ہے۔ یعنی قادیانیوں سے نفرت نہیں کرتا۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک کے نتیجہ میں قادیانی زمین پر لگ گئے۔ ہر محکمہ اور ہر میدان میں ’’غیر متعصب‘‘ افراد کی تلاش کی جانے لگی۔
قادیانی ایسے شخص کو ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ اسے اپنی مجلسوں میں بلواتے اور اس کا تعارف کراتے کہ یہ شخص متعصب نہیں ہے۔ یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ اس دوران ایک نئی نسل جوان ہوچکی ہے۔ جو تعصب اور متعصب کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے اور اب جو آدمی غیرت اسلامی کی