درخواست دی۔ بعد میں تحریری امتحان ہوا جس میں میں پاس ہوگیا۔ جنوری ۱۹۸۶ء میں انٹرویو ہوا جس میں میں نے شمسی توانائی کے میدان میں اپنی تحقیق پر مشتمل ایک مقالہ پیش کیا۔ جس کو بہت سراہا گیا اور یوں میں نے تمام مراحل طے کرلیے۔ ۱۰؍اپریل ۱۹۸۶ء سے گورنمنٹ کالج چکوال سے میری سروس کا آغاز ہوگیا۔ واضح رہے کہ میں نے فارم (پنجاب پبلک سروس کمیشن لاہور کے فارم) مذہب کے خانے میں نمایاں طور پر ’’قادیانی‘‘ لکھا تھا۔ مگر اس کے باوجود مجھے سلیکٹ کیا گیا۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ بہت لائق ہوگا۔ ایسی بات نہیں نیو کیمپس پنجاب یونیورسٹی میں فزکس کے میرے کلاس فیلو میں درجن سے زائدایسے طلباء تھے جن کے نمبر مجھ سے زیادہ تھے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ بہت زیادہ طلباء کو سلیکٹ کیا ہوگا لہٰذا اسے بھی موقع مل گیا۔ ایسی بات بھی نہیں۔ نیو کیمپس میں فزکس کا امتحان پاس کرنے والے پچاس سے زائد میرے کلاس فیلوز میں سے ہم صرف دو طلباء سلیکٹ ہوئے گویا ’’۵۰ فیصد قادیانی سلیکٹ ہوئے۔‘‘
یہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ میرے شمسی توانائی کے کام کو میرٹ پر پرکھا گیا۔ میرے اس کام کی وجہ سے مجھے سلیکٹ کیا گیا۔ گویا امیدوار کی صلاحیتوں کو دیکھا گیا نہ کہ مذہب کو۔
پنجاب میں دوسرے کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء میں سے ایک اور میرے ہم مذہب ہم نام نوجوان کو بھی سلیکٹ کیا گیا وہ جھنگ میں اس وقت بھی بدستور قادیانی رہ کر سروس کر رہا ہے۔
ملازمت پر قادیانیوں کے لیے پابندی نہیں۔ البتہ قادیانی خود پہلے جماعت سے مخلص اور وفادار ہوتے ہیں بعد میں اپنے رشتہ داروں، برادری اور اپنے ملک سے وفاداری کرتے ہیں۔ لہٰذا ایک قادیانی جس بھی محکمے میں ہوگا وہ کبھی بھی اس سے جماعت سے زیادہ مخلص نہیں ہوگا۔ اب جماعت پاکستان کو دشمن سمجھتی ہے تو قادیانی کیسے اس ملک کو اپنا سمجھ سکتے ہیں۔ جب قادیانی دنیا میں پاکستان کے خلاف کھل کر پراپیگنڈہ کر رہے ہیں تو ان کی پاکستان کے ساتھ وفاداری مشکوک ہو چکی ہے۔ اب اگر کسی حساس ادارہ میں انہیں نہ آنے دیا جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔
(روزنامہ اوصاف ۴،۵؍جون ۲۰۰۰ئ)
(۱۱) … قادیانیوں کا ’’خدا‘‘ سائیکل پر
قادیانی جماعت میں کسی زمانے میں ایک نظام ہوا کرتا تھا۔ جسے نظام جماعت کہا جاتا