اس تمہید کے بعد اب سمجھئے کہ جب تک سائل کے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات نے زبان وبیان کے اظہار کی شکل اختیار نہیں کی تھی۔ وہ کسی جرم کے دائرے میں نہیں آتے تھے۔ مگر اب جب کہ سائل نے نہایت توہین وتنقیص کے انداز میں ان خیالات کو اظہار کا جامہ پہنا کر ان کے ذریعے اسلام اور پیغمبراسلامﷺ کو تنقید کا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے تو بلاشبہ یہ انداز توہین رسالت کے زمرے میں آئے گا۔ جس کا واضح قرینہ سائل کا توہین وتنقیص پر مبنی اگلا چودھواں سوال ہے۔ جس میں اس نے اس کا برملا اظہار کیا ہے کہ: ’’حضرت محمدﷺ جب ایک رات میں ساتوں آسمانوں کی سیر کر سکتے ہیں۔ چاند کو دو ٹکڑے کر سکتے ہیں۔ اتنے بڑے مذہب کے بانی اور خدا کے سب سے قریبی نبی ہیں تو کیا وہ مجھے ان سوالات کی پاداش میں مناسب سزا نہیں دے سکتے؟‘‘
گویا سائل نے نہایت جرأت، ڈھٹائی، بے باکی اور گستاخی کے انداز میں، آنحضرتﷺ کے معجزۂ معراج، شق قمر، خداتعالیٰ کے قرب اور اسلام کے بانی ہونے کا صاف انکار کیا ہے۔ اس کے علاوہ سائل نے تضحیک کے انداز میں اپنی اس گستاخی پر براہ راست آنحضرتﷺ سے سزا پانے کا مطالبہ کر کے گویا یہ باور کرانے کی ناپاک کوشش کی ہے کہ اس گستاخی پر تم تو کیا تمہارے جلیل القدر نبی بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ بتلایا جائے کہ یہ گستاخی اور توہین رسالت کے زمرے میں کیونکر نہیں آئے گا؟ شاید سائل اور اس کے ہم نواؤں کو ہماری گزارشات یوں سمجھ نہ آئیں تو ہم ان کو یہ معاملہ ایک مثال سے سمجھائے دیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ:
اگر کوئی شخص صدر پاکستان جناب جنرل پرویز مشرف کے بارے میں کہے کہ اس نے فلاں کام غلط کیا؟ فلاں معاملہ اس کا درست نہیں تھا۔ اس نے اقرباء پروری سے کام لیا۔ اس نے اپنے مفادات کی خاطر اور اپنے اقتدار ومقبولیت کی خاطر یہ غلط کام کئے اور پھر آخر میں یہ کہے کہ اس قسم کے سوالات میرے ذہن میں آتے ہیں۔ کیا ان کا زبان پر لانا صدر کی توہین کے زمرے میں آئے گا؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو صدر صاحب اتنے بڑے عہدے کے حامل ہیں اور حاضر سروس جنرل اور پاکستان کے صدر بھی ہیں تو کیا وہ مجھے ان سوالات واشکالات کی پاداش میں مناسب سزا نہیں دے سکتے؟ بتلایا جائے کہ کسی منچلے کا ایسا انداز صدر کی گستاخی میں آئے گا یا نہیں؟
اتنا بڑے محمدﷺ توہین رسالت کی سزا خود کیوں نہیں دے سکتے؟
۱۴… ’’جو حضرات ’’ہاں ‘‘ کہیں گے۔ ان سے صرف یہی عرض کر سکتا ہوں کہ حضرت