میں خاصی دوری پیدا ہوگئی ہے۔ جہاں کوئی مسلمان قادیانی ہونے کی جرأت نہیں کرتا وہاں قادیانی بھی اس دوری کو پار کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ خدا تعالیٰ قادیانی نوجوانوں کو ہمت دے کہ وہ اس دوری کو عبور کرکے مسلمان ہو جائیں۔ آمین! (ماہنامہ لولاک ملتان، ماہ اگست ۱۹۹۹ئ)
(۲) … جماعت احمدیہ کے ’’بزرگانہ‘‘ جھوٹ
قادیانی جماعت میں ایک قادیانی کی حیثیت سے گزارے ۴۰ سالوں میں مسلسل جماعتی عہدے داروں، مربیوں کے ذریعہ جھوٹ کے خلاف نفرت کا تأثر ملتا رہا ہے۔ صدہا لیکچرز میں مسلمان علمائ۔ دانشوروں کے بیانات میں سے جھوٹ تلاش کرنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ مذمت کی جاتی رہی ہے۔ جس سے یہ یقین ہوچکا تھا کہ جماعت جھوٹ سے سخت نفرت کرتی ہے۔ بلکہ نوجوانوں (خدام الاحمدیہ) کو پانچ نکات پر مشتمل ایک تربیتی پروگرام بھی دیا گیا تھا جو جماعت کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر سامنے آیا۔ اس میں بھی ایک نقطہ جھوٹ سے نفرت کا تھا۔
دوسری طرف جب جماعتی عہدیدداروں اور مربیوں کے کردار کو دیکھیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔ مگر اس وقت عہدیداروں اور مربیوں کے سردار یعنی قادیانی جماعت کے سابق سربراہ مرزا ناصر احمد کے حوالے سے چند باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں جنہیں میں بھی اپنے دور میں ’’خلیفہ وقت‘‘ سمجھا کرتا تھا اور ان کی وفات تک اسی اعتقاد پر تھا۔ یہ اسی عقیدت کا نتیجہ تھا جو ہر قادیانی بچے کے دل و دماغ میں بٹھائی جاتی ہے کہ ’’خلیفہ وقت‘‘ خدا کے نمائندہ ہیں۔ اگر آپ کے سر میں درد ہے تو دعا کے لیے خلیفہ کو خط لکھیں۔ اگر امتحان دنیا ہے تو خلیفہ کو خط لکھیں۔ اگر ایک عورت کا اپنے خاوند سے جھگڑا ہے تو وہ خلیفہ کو خط لکھے اور اگر کسی مرد کا اپنی بیوی، ماں، بہن سے کوئی اختلاف ہے تو وہ ’’حضور (خلیفہ)‘‘ کو خط لکھے گا۔ یہ عقیدت اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اب اگر خلیفہ جماعت کو بتائے کہ جھوٹ نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے تو دوسرے دن قادیانی بلاجھجک جھوٹ کو ’’مذہبی شعار‘‘ کے طور پر اپنا لیں گے۔ کسی میں اختلاف کی گنجائش نہ ہوگی۔ تادم تحریر جھوٹ کو جائز قرار نہیں دیا گیا۔ ابھی زبانی زبانی طور پر اسے قابل مذمت ہی سمجھا جاتا ہے۔ البتہ ذیل کی تحریر کے بعد اکثر قادیانی جھوٹ کو جائز سمجھنا شروع ہو جائیں گے۔
قومی اسمبلی میں ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کے موقع پر قادیانی جماعت کے اس وقت کے سربراہ ناصر مرزا صاحب کو طلب کیا گیا اور ۱۱ دن تک جماعت کے عقائد اور موقف کے بارے