داریاں‘‘ بھی تو ہوسکتی ہیں۔ کئی ’’رازوں کے محافظ‘‘ کو اتنی سی بھی رعایت نہ دیں تو بے وقوفی ہوگی۔یہ تھی جناب ناظر اعلیٰ جناب کی مجبوری جس کی وجہ سے انہوں نے جماعت کے لیے ایک فلسفہ کو الٹ کر رکھ دیا۔ (۱۵؍اکتوبر ۲۰۰۰ئ، اوصاف اسلام آباد)
(۲۱) … قادیانی جماعت کی ’’غلام احمد‘‘ نام سے بیزاری
ہر مذہب میں اس کے بانی کا نام اس کے ماننے والوں کے ناموں میں اس کثرت کے ساتھ گردش کرتا ہے کہ دیکھنے سننے والا ان کے ناموں سے ان کے پیرو مرشد سے عقیدت کو جانچ سکتا ہے۔ مذہب اسلام کے ماننے والے اس کثرت کے ساتھ اپنے نبی اور ان کے صحابہ کا نام اپنے بچوں میں استعمال کرتے ہیں کہ نہ صرف عوام الناس کی عقیدت ظاہر ہوتی ہے بلکہ ان کے نبی اور ان کے صحابہ کی شان کی بلندی بھی ظاہر ہوتی ہے۔
مسلمانوں میں غلام نبی، غلام مصطفی، غلام مرتضیٰ، غلام مجتبیٰ، غلام محمد، محمد احمد، محمد شریف، محمد صدیق، محمد ابراہیم وغیرہ وغیرہ، اس کثرت سے نام ملیں گے کہ ایک چھوٹے سے گائوں محلے میں درجنوں ایسے نام مل جائیں گے جو مسلمانوں کے نبی یعنی حضرت محمدؐ سے عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پھر ان کے اصحاب سے منسوب بھی نام اس کثرت سے ملیں گے کہ گنتی مشکل ہو جائے۔ عیسائیوں میں ہر شخص کے نام کے ساتھ مسیح لگا کر مسیح علیہ السلام (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) سے عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ سکھوں میں اپنے گرو سے عقیدت سنگھ کا لفظ لگانے سے ظاہر ہوتی ہے۔
قادیانی جماعت ایک عجیب کشمکش کا شکار ہے مرزا غلام احمد قادیانی نے شروع میں اپنے آپ کو ’’غلام احمد‘‘ کے طور پر ہی پیش کیا اپنی عقیدت کو شعروں کی صورت میں بیان کیا۔
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے
اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے، میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
(قادیان کے آریہ اور ہم ص۵۷،۵۸، خزائن ج۲۰ ص۴۵۴)
یہ اس دور کی بات ہے جب آپ نے مجدد، پھر مہدی اور مسیح موعود تک کے دعوے کیے