آنحضرتﷺ نے کبھی میرا ستر دیکھا۔‘‘
کیا دنیا میں کوئی بیوی اپنے شوہر کے بارے میں یہ شہادت دے سکتی ہے کہ مدۃ العمر انہوں نے ایک دوسرے کا ستر نہیں دیکھا؟ اور کیا اس اعلیٰ ترین اخلاق اور شرم وحیا کا نبی کی ذات کے سوا کوئی نمونہ مل سکتا ہے؟
غور کیجئے! کہ آنحضرتﷺ کی نجی زندگی کے ان ’’خفی محاسن‘‘ کو ازواج مطہراتؓ کے سوا کون نقل کر سکتا ہے؟ (آپ کے مسائل اور ان کا حل ج۹ ص۲۷۶)
حق طلاق عورت کو کیوں نہیں دیا گیا؟
۱۰… ’’شریعت محمدی میں مرد اگر تین بار طلاق کا لفظ ادا کر کے ازدواجی بندھن سے فوری آزادی حاصل کر سکتا ہے تو اسی طرح عورت کیوں نہیں کر سکتی؟‘‘
جواب… مرد اور عورت کو اﷲتعالیٰ نے مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ چنانچہ جسمانی ساخت سے لے کر ذہنی اور فکری استعداد تک وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس لئے اﷲتعالیٰ نے ان کے جسمانی ونفسیاتی پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کو اسی حساب سے تقسیم فرمایا ہے۔ مثلاً خواتین جسمانی اعتبار سے کمزور اور نرم ونازک ہوتی ہیں۔ جب کہ مرد ان کے مقابلے میں سخت جان اور محنت کش ہوتے ہیں۔ اس لئے شریعت مطہرہ اور اسلام نے خواتین کو بہت سی پرمشقت ذمہ داریوں سے آزاد رکھا ہے۔ مثلاً خواتین پر جمعہ نہیں، جماعت نہیں، جہاد نہیں، امامت نہیں، قیادت وسیادت نہیں اور کسب معاش نہیں، اسی فطری اور جسمانی ساخت کے اعتبار سے خواتین کو ماہواری آتی ہے۔ ان کو حمل ٹھہرتا ہے، وہ بچے جنتی ہیں، بچوں کو دودھ پلاتی ہیں۔ ان کی طبیعت میں مرد کی نسبت زیادہ متأثر ہونے کی استعداد وصلاحیت ہے۔ ان میں برداشت کا مادہ کم ہوتا ہے۔ ان کو غصہ بہت جلدی آتا ہے اور وہ اپنی فطری ضرورت کی تکمیل کی خاطر ماں باپ کا گھر چھوڑ کر اپنے شریک حیات کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزارتی ہیں، وغیرہ۔ اس لئے مرد کو قوّام وحاکم اور عورت کو اس کے ماتحت اور دست نگر کا درجہ دیاگیا۔ اسلام نے ان کی انہیں فطری صلاحیتوں کے باعث ان پر کم سے کم بوجھ ڈالا ہے۔ چنانچہ اسلام نے خواتین کو کسب معاش کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ بلکہ اسے گھر کی ملکہ بنایا، گھر کی چاردیواری کے معاملات اس کے سپرد فرمائے اور گھر کی چاردیواری کے باہر تمام امور مرد کے ذمہ قرار دئیے، کسب معاش مرد کی ذمہ داری ہے۔ خاتون کے نان، نفقہ، لباس، پوشاک، علاج معالجہ اور سکونت ورہائش کا انتظام بھی مرد کے ذمہ قرار دیا اور ان دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق وذمہ