(اصل میں یہ پلاٹ مربی ہائوس کے لیے دیا گیا مگر قادیانی جماعت نے وہاں پر مربی ہائوس نہ بنایا اور دوسری جگہ خرید کر وہاں بنالیا) پھر ہمارا جماعت سے علیحدہ ہونے اور اسلام کے قریب ہونے کا مرحلہ شروع ہوگیا۔ جب ہم نے ۱۵ جنوری کو اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو جماعت نے ہمیں اقلیت جانتے ہوئے بڑی ہوشیاری اور تیزی سے ۲۶ جنوری کو وہ پلاٹ اپنے نام انتقال کروالیا۔ اور جب ہم نے اپنی نئی جماعت جماعت اہل سنت حنفیہ کو گلی پر ۸ مرلہ پلاٹ مسجد کے لیے دیا اور ان کے نام انتقال (رجسٹری) کروا دیا۔ تو مسلمانوں کی عبادت گاہ کے لیے دئیے جانے والے پلاٹ پر قادیانیوں نے فوراً قبضہ کرلیا۔ ہم نے جھگڑے سے بچنے کے لیے اس مخصوص پلاٹ سے ہٹ کر اور جگہ دے دی، اب وہاں ختم نبوت مسجد تعمیر ہوچکی ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کی مسجد کے لیے مخصوص پلاٹ پر قادیانیوں کا قبضہ بدستور قائم ہے۔ قادیانیوں نے مسلمانوں کو کمزور اور اقلیت جان کر قبضہ کیا ہے۔ پلاٹ مسلمانوں کے نام ہے جبکہ قبضہ (چار دیواری گیٹ) قادیانیوں نے کر رکھا ہے۔ مسلمانوں کا شعور اور مذہبی غیرت عموماً کسی تحریک پر جاگنی ہے۔ عموماً لمبی تان کر سوتے ہیں۔ ہاں اگر کسی نے ان کو ڈسٹرب کر دیا اور وہ بغیر کسی تحریک کے جاگ گئے تو یہ کسی بھی وقت قادیانیوں کی غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے پاکستان کے غیور مسلمانوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیں گے۔ (اوصاف ۱۸؍جولائی ۲۰۰۰ئ)
(۱۴) … قادیانیوں کی ڈھٹائی
کہتے ہیں کہ ہندو بنیے کا کسی مسلمان سے جھگڑا ہوگیا۔ بنیا خاصا کمزور اور دبلا پتلا تھا۔ مگر بڑے غصے اور اکڑ والا تھا۔ مسلمان طاقتور اور پہلوان قسم کا تھا۔ مسلمان نے بنیے کی خوب پٹائی کی۔ نیچے گرا کر گھونسوں، مکوں سے خوب ٹھکائی کی۔ جب اسے چھوڑا تو بنیا کھڑا ہوا۔ کپڑے جھاڑے اور مسلمان کو للکارتے ہوئے کہنے لگا ‘’’اب کے مار‘‘ یعنی اب مجھے مار کر دیکھو۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب تم نہیں مار سکتے۔ اگر مارو گے تو خوب جواب بھی ملے گا۔ پہلوان نے دوبارہ اسے ’’گوڈوں‘‘ کے نیچے لے لیا اور ایک بار پھر مکوں کی بارش سے خوب ’’سیراب‘‘ کیا۔ جب خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں ’’گلے ہی نہ پڑجائے‘‘ تو اسے چھوڑ دیا۔ بنیا بمشکل سیدھا ہوا اور پھر للکار کر کہنے لگا۔ ’’اب کے مار‘‘ پہلوان نے تیسری بار اس کی للکار کا جواب دیتے ہوئے اس کی ’’آکڑ‘‘ کو نچوڑ ڈالنے کی غرض سے اپنی طرف سے بھرپور کوشش کی۔ اب اسے یقین ہو رہا تھا کہ اب کی بار ۳۰۲ کا کیس بنتا نظر آ رہا ہے۔ پھر جب