ہونے والوں کی اکثریت قادیانی تھی۔ اس میں ہمارے قریبی رشتہ دار بھی تھے دیکھتے ہی دیکھتے محمود آباد کے باہر ایک نیا قبرستان آباد ہوگیا۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ طاعون کا قادیانی بھی اس طرح شکار ہوئے جس طرح دیگر عوام۔
قادیانی معجزات پر بڑا یقین رکھتے ہیں مگر سو سال میں جماعت کی جھولی میں کوئی خاص معجزہ نہ آسکا جن معجزات کا وہ ذکر کرتے ہیں ان پر تبصرہ ہوچکا ہے البتہ کسی مخالف کے کان میں درد ہو یا سائیکل سے گر جائے یا کوئی مالی نقصان ہو جائے تو قادیانی خوش ہو جاتے ہیں کہ معجزہ ہوگیا چلو ’’لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ‘‘ کے مطابق دل کو خوش اور لہو کو گرم رکھنے کا ان کا بھی حق ہے۔ ہمیں یہ حق تسلیم ہے اس حق کو استعمال کریں شاید حق کو استعمال کرتے کرتے ’’حق‘‘ کو پالیں۔
(روزنامہ ’’اوصاف‘‘ اسلام آباد، ۲۱تا۲۳؍مئی ۲۰۰۰ئ)
(۷) … قادیانی جماعت کی طرف سے ’’معجزہ‘‘ بنانے کی تیاریاں
قادیانی جماعت معجزات پر بہت یقین رکھتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حضرت محمدؐ سے منسوب معجزات کا انکار کرتی ہے۔ قادیانی جماعت کے ’’عظیم الشان معجزات‘‘ میں لیکھرام کا قتل، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، جنرل ضیاء الحق کا حادثہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ان کے پاس معجزات نہیں ہیں۔ لیکھرام ایک ہندو (آریا مذہب) تھا۔ مرزا قادیانی نے اس کی ہلاکت کی پیشگوئی کی مگر وہ مقررہ مدت میں ہلاک نہ ہوا تو فوراً بعد ایک شخص کے ذریعہ قتل کروا دیا۔ جماعتی لٹریچر اس کی ہلاکت کی خبر یوں دیتا ہے کہ ایک خونخوار قسم کا مرد اس کے پاس بطور ملازم آیا وہ اس کے ساتھ ساتھ رہتا۔ تین دن کے اندر اس نے موقع پا کر خنجر کے وار کرکے اسے قتل کر دیا اور غائب ہوگیا۔ جماعت کہتی ہے کہ وہ فرشتہ تھا جو اسے ہلاک کرکے غائب ہوگیا۔ اس کا نہ ملنا اس کے فرشتہ اور معجزہ ہونے کا ثبوت ہے حالانکہ آج کل ایسے ’’معجزات‘‘ پاکستان میں کثرت کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ سینکڑوں قتل ہوتے ہیں اور قاتل پکڑے نہیں جاتے تو ظاہر ہے یہ ’’معجزات‘‘ ہوئے۔ یہ جس جماعت کے لیے ہو رہے ہیں کتنی ’’پہنچی‘‘ ہوئی ہوگی گویا ’’دہشت گردی معجزانہ رنگ بھی رکھتی ہے۔‘‘
جیسا کہ پہلے مضامین میں تذکرہ ہو چکا ہے خاکسار نے اپنے بڑے بھائی ملک حفیظ احمد اور اپنے والد محترم سمیت کل ۱۱ افراد کے ساتھ جمعۃ الوداع کے دن (۱۵ جنوری ۱۹۹۹ئ) قادیانیت کو خیرباد کہہ کر اسلام قبول کرلیا تھا۔ میرے بڑے بھائی ملک حفیظ احمد نے جامع مسجد گنبد