اس مخلص قادیانی سے کیونکہ امیر جماعت ناراض ہے۔ لہٰذا اس سے ’’خلیفہ وقت‘‘ بھی ناراض ہوں گے۔ کیونکہ امیر جماعت خلیفہ کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے لہٰذا خلیفہ کا ناراض ہونا لازمی امر ہے۔ اور جس سے خلیفہ ناراض ہے۔ قادیانی عقیدت و عقائد کے مطابق خدا تعالیٰ بھی اس سے ناراض ہے۔ اب جس سے خدا ناراض ہے اس کے مستقبل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اب اگر امیر جماعت اس مخلص قادیانی سے راضی ہوگا تو خدا راضی ہوگا۔ گویا خدا تعالیٰ اس جماعت کے امیر کی مرضی کا پابند ہے اگر وہ اجازت دے گا تو خدا تعالیٰ اس آدمی سے راضی ہوسکتا ہے ورنہ نہیں۔ (نعوذ باللہ)
درج بالا صورت بالکل اسی طرح جماعت میں رائج ہے۔ اب صورت حال یہ بنی کہ خدا تعالیٰ ہر گائوں کی قادیانی جماعت کے وڈیرے، ڈانگ مار اور پھڈے باز شخص کی مرضی کا پابند ہوگا۔ جس کے بارے میں وہ کہے گا کہ اسے بخش دو، خدا اس کو بخش دے گا اور جس کے بارے میں دوزخ ریکمنڈ کرے گا خدا اسے دوزخ میں بھیجنے کا پابند ہے۔ (نعوذ باللہ)
درج بالا حقائق کو قادیانی تسلیم کریں گے مگر اظہار نہیں کرسکیں گے کیونکہ ’’آزادی ضمیر‘‘ کا جو نمونہ جماعت میں ہے وہ کسی اور جگہ نہیں۔ اس پر بات بعد میں بہرحال مجھے ان سے ہمدردی ہے جہاں رہیں خوش رہیں۔ آخر وہ میرے پرانے ’’کلاس فیلو‘‘ ہیں۔
(۲۳،۲۴؍ اپریل ۲۰۰۰ئ، روزنامہ اوصاف اسلام آباد)
(۴) … قادیانی حضرات کا محمدﷺ سے کیا تعلق ہے؟
ہندوستان کے قصبے قادیان ضلع گورداسپور میں انیسویں صدی کے آخری ربع میں مرزا غلام احمد قادیانی نے متعدد دعوے کرکے ایک نئی جماعت کی بنیاد ڈالی جس کا نام ’’جماعت احمدیہ‘‘ رکھا گیا۔ مرزا صاحب کے ایسے دعوے سامنے آئے جو مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہ تھے۔ ایک طرف انہوں نے مسیح موعود کا دعویٰ کیا تو دوسری طرف امام مہدی کا بھی کر دیا۔ ایک طرف اپنے آپ کو عیسیٰ ابن مریم کہا تو دوسری طرف امتی نبی کی نئی اصطلاح کے ساتھ نبی ہونے کا دعویٰ کردیا۔ پہلے چودہویں صدی کے مجدد کا دعویٰ کیا تو آخر پر نبی تک بات پہنچا دی، پہلے کہا۔
’’وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد، دلبر میرا یہی ہے۔‘‘
(درثمین ص ۷۷، قادیان کے آریہ اورہم ص ۵۷، خزائن ج۲۰ ص ۴۵۶)