رہیں ورنہ جنت کے دروازے پر مرزا قادیانی کی فیملی کا کوئی شہزادہ آپ کو روک لے گا۔ جس طرح ربوہ میں موجود جنت (بہشتی مقبرہ) میں چندہ وصیت ادا نہ کرنے والے کو روک لیا جاتا ہے اور جب تک اس کے لواحقین سارا چندہ ادا نہیں کردیں دفن کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد مورخہ ۷؍اکتوبر۲۰۰۰ئ)
(۲۰) … فاتحہ خوانی اور قادیانی جماعت
قادیانی جماعت میں مختلف قسم کی مذہبی رسومات کو ’’بدعات‘‘ کا نام دے کر اس سے پرہیز کی ترغیب دی جاتی ہے اور تحریر و تقریر سے اس کے خلاف نفرت پیدا کرا کے اس سے بچنے کی تاکید کی جاتی ہے، ان مذہبی رسومات میں ’’فاتحہ خوانی‘‘ بھی شامل ہے۔
قادیانی جماعت اس فاتحہ خوانی سے منع کرتی ہے اسے بدعت کا نام دیا جاتا ہے مرزا غلام احمد قادیانی نے اس بارے میں کہا تھا کہ اس سے بدعتوں کے دروازے کھلتے ہیں۔ یعنی اس سے منع کیا تھا۔
میں نے اپنے بچپن سے یعنی ۱۹۶۰ء کی دہائی میں محمود آباد جہلم میں ہر فوتگی پر باقاعدہ افسوس والی جگہ مخصوص کرنے (پھڑی ڈالنے) اور فاتحہ خوانی کرتے دیکھا ہے اور یہ سلسلہ ۱۹۹۰ء تک چلتا رہا ہے جماعت کی تمام کوششوں کے باوجود فاتحہ خوانی چلتی رہی ہے۔ البتہ ۱۹۸۰ء سے ۱۹۹۰ء تک خاصی کمی ہوگئی تھی قادیانی کسی قادیانی کے فوت ہونے پر ایک مخصوص جگہ پر اکٹھے تو ہوتے تھے مگر ہاتھ اٹھا کر فاتحہ نہیں پڑھتے تھے۔یہ ایک عجیب سی کیفیت ہوتی ہے کہ ایک قادیانی کا عزیز فوت ہوا ہے لوگ اس کے ساتھ افسوس کرنے آ رہے ہیں وہ آکر اسی قادیانی کے عزیز کے لیے کی جانے والی دعائوں میں شامل نہیں ہو رہا۔ ایسی عجیب الجھن محسوس ہوتی مگر کیا کرتے جماعت کی طرف سے منع جو کیا گیا تھا۔ جب کسی دفتر، ادارے میں وہاں کا سٹاف، کسی ممبر کے عزیز کے فوت ہونے پر مشترکہ طور پر فاتحہ خوانی کرتے تو ان میں موجود قادیانی اپنے ہاتھ نیچے رکھتے اور یوں سب کی نظر میں آتے اور پھر بہت سی تلخیاں پیدا ہوتیں۔ کیونکہ جس کے عزیز کے ایصال ثواب کی خاطر فاتحہ پڑھی گئی اس نے نوٹ کیا کہ فلاں قادیانی دعا میں شامل نہیں ہوا تو وہ اس کو کیسے بخشے گا ایک رنجش کی بنیاد پڑ گئی۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ بلکہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ۔
مقصود تحریر قادیانیوں کی اس عادت یا سوچ کو ظاہر کرنا نہیں بلکہ ایک دلچسپ صورت کی