(۹) … دجال اورمرزاقادیانی؟
(شیخ راحیل احمد۔ جرمنی)
آپ بھی کہیں گے کہ یہ کیا روزانہ مرزاغلام اے۔قادیانی کا ذکر لے بیٹھتا ہے۔ لیکن میں بھی کیاکروں ،مجبور ہوں کیونکہ عمر کا ایک حصہ ان کی امت میں گزار کر جیسے مجھے مرزا قادیانی سے انسیت سی ہوگئی ہے اوران سے یہ انسیت مجھے ان کی کتابوں کا مطالعہ کراتی ہے اوریہ مطالعہ مجھے انسپائر (Inspire)کرتا ہے کہ مرزا قادیانی پر کچھ لکھنے کو،اوریہ ماننا پڑے گا کہ مرزاقادیانی صرف اونچے درجے کے کتب فروش ہی نہیں تھے ۔بلکہ کبھی کبھار سچ اوربڑے پتے کی بات بھی لکھ جاتے تھے۔ ویسے تو کئی بار کیا اکثر وہ خود بھی اپنی تحریروں کے زد میں آئے۔ لیکن ان کو اپنی تاویل سازی پر اتنا بھروسہ تھا کہ وہ اپنی تحریر کو واپس نہیں لیتے تھے۔ بلکہ اس کی تاویل ایسی کرتے تھے کہ آئندہ کئی صدیاں ان کا اس فن میں کوئی ثانی نہیں ہوگا۔ہاں تمہید میں اصل بات کا ذکر رہ ہی گیا کہ مرزاقادیانی نے کیاسچ لکھا؟مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ:’’پرلے درجے کا جاہل ہوجو اپنے کلام میں متناقض بیانوں کو جمع کرے اوراس پر اطلاع نہ رکھے۔‘‘ (ست بچن ص۲۹ حاشیہ، خزائن ج۱۰ ص۱۴۱) کیوں سچ ہے یا نہیں؟
مرزاغلام احمد قادیانی قرآن کریم کے اس سوال کے صحیح مصداق تھے کہ:’’لم تقولون مالا تفعلون‘‘ یعنی وہ تم کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیںاورمرزا قادیانی کی زندگی میں ایسی کئی مثالیں مل جائیں گی کہ مرزاقادیانی جو کہتے تھے وہ کرتے نہیں تھے اوراکثردوسروں پر لاعلمی کی تہمت لگاتے تھے اوراپنی بڑائی کاڈھنڈورا پیٹتے تھے۔حالانکہ وہ خود جس پر الزام لگا رہے ہوتے تھے۔اس سے کہیں زیادہ لاعلم ،بلکہ بے علم ہوتے تھے اوراپنی اس عادت کانشانہ نہ صرف علماء وقت کو ،نہ صرف اولیائے کرام اوربزرگوں کو ، نہ صرف صحابہ کبارؓ کوبلکہ نبیوں اوریہاں تک کہ سرور کائنات، شافع دو جہاں، فخر الرسل، امام الانبیاء محسن انسانیت رحمتہ اللعالمین خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺکو بھی بنایا۔اس جگہ اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ مرزاقادیانی نے تو بے شمار موشگافیاں اپنے قلم کی دکھائی ہیں۔آج دجال کے بارے میں مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔مرزا قادیانی لکھتے ہیں:’’اگرآنحضرتﷺپر ابن مریم اوردجال کی حقیقت کاملہ بوجہ نہ موجود ہونے کسی نمونہ کے موبمومنکشف نہ ہوئی اورنہ دجال کے ستر باع گدھے کی اصل کیفیت کھلی ہواورنہ یاجوج ماجوج کی عمیق تہ تک وحی الٰہی نے اطلاع دی ہو اورنہ دابۃ الارض کی ماہیت کماہی ہی ظاہر فرمائی گئی…توکچھ تعجب کی بات نہیں‘‘ (ازالہ اوہام طبع پنجم ص۶۹۱، خزائن ج۳ ص۴۷۳) حالانکہ