پر توجہ دلاتی رہی کوئی بھی صدر آٹھویں ترمیم کے ختم کرنے کے حق میں نہ تھا کیونکہ ان کے اختیارات کم ہوتے تھے اور کوئی وزیر اعظم اتنا مضبوط نہ تھا کہ وہ اپنی بات منوا سکتا۔ ۱۹۹۷ء میں نواز شریف کے ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ نے آٹھویں ترمیم کو ختم کر دیا مگر قادیانی جو ۱۳ سال سے کسی مسیحا کی تلاش میں تھے اور آٹھویں ترمیم کے ختم ہونے کے انتظار میں بھی ۱۱ سال گزار چکے تھے کو سخت مایوسی ہوئی جب آٹھویں ترمیم تو ختم ہوگئی مگر جنرل ضیاء کی قادیانیوں کے خلاف کی گئی ’’کاروائی‘‘ ختم نہ ہوسکی۔
قادیانی پاکستان میں ۱۹۵۳ء ۔ ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء میں شدید قسم کی مار کھا چکے ہیں۔ مگر ابھی تک وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ ہمارا کیا بگڑا ہے۔ گویا مالی، جانی نقصان، عزت و شہرت کا خاک میں ملنا۔ مختلف قانون سازیوں کے ذریعہ جکڑے جانا۔ مسلم سے غیر مسلم تک دھکیلے جانا کوئی نقصان نہیں۔ اب ایک بار پھر وہ امت مسلمہ کو اس طرف متوجہ کر رہے ہیں کہ ہم بہت زیادہ ترقی کر رہے ہیں اور اب ایک سال میں کروڑوں لوگ قادیانی ہو رہے ہیں۔ نئی بیعتوں کی کیا حقیقت ہے اس پر تفصیلی مضمون (پہلے) لکھا جاچکا ہے مگر اس سے قادیانیوں کا مورال بڑھنے کے ساتھ ان کی للکار میں شدت آ رہی ہے اور وہ اب بار بار بذبان حال کہہ رہے کہ ’’اب کے مار‘‘
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد، مورخہ۲۰تا۲۲،۲۴،۲۶؍جولائی ۲۰۰۰ئ)
(۱۵) … مرزا طاہر احمد کا ’’سنجیدہ مذاق‘‘
قادیانی جماعت نے اپنے آغاز ہی سے تبلیغ پر بڑا زور دیا۔ تعداد کو بڑھانے کا تو ہر جماعت کو ہی شوق ہوتا ہے مگر قادیانی جماعت کی تعداد بڑھنے سے جماعت کے ’’اونرز‘‘ کے لیے ’’ریونیو‘‘ بڑھنے کا سبب پیدا ہوتا ہے لہٰذا تعداد کو بڑھانا ’’بزنس‘‘ کے لیے ضروری ہے اس کے لیے جماعت نے تبلیغ (مارکیٹنگ) پر بہت زور دیا ہے۔
جب ایک آدمی قادیانی ہوتا ہے تو اس پر پندرہ قسم کے چندے لاگو ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک قادیانی کا بغیر چندہ ادا کیے قادیانی رہنے کا تصور بھی نہیں ہے بلکہ ان کے ’’خلفائ‘‘ نے واضح طور پر کہہ رکھا ہے کہ جو قادیانی چندہ نہیں دیتا وہ قادیانی ہی نہیں ہوسکتا۔
جماعت نے تبلیغ پر بہت زور دیا۔ دوسرے ’’خلیفہ‘‘ مرزا محمود احمد نے بہت زیادہ تبلیغ پر زور دیا۔ انہوں نے اپنی توجہ کشمیر پر رکھی اور جماعت کی توانائیاں اس طرف لگائیں۔ مسلمانوں نے قادیانی جماعت کو کشمیریوں کا ہمدرد سمجھتے ہوئے ان پر اعتماد کرتے ہوئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی