غلام احمد‘‘ نام ملے گا نہ ہی غلام احمد بشیر بلکہ اصل نام ’’غلام احمد‘‘ ہی ناپید ہے مرزا قادیانی کی فیملی میں بھی ایک دو نام صرف ایسے ہیں باقی وحید احمد، بشیر احمد، منیر احمد، مظفر احمد، طاہر احمد، ناصر احمد، فرید احمد، لقمان احمد وغیرہ وغیرہ یہ سب مرزا غلام احمد کے دعوئوں کی مکسنگ (گڈمڈ) کی وجہ سے ہوا۔ اب طاہر احمد ناصر احمد میں ’’احمد‘‘ سے مراد مرزا قادیانی لیا جاتا ہے جبکہ غلام احمد نام رکھنے سے مطلب دوسری طرف نکل جاتا ہے کیونکہ مرزا صاحب کا نام غلام احمد نام رکھنے سے توجہ اوپر یعنی (حضرت محمد مصطفی) تک پہنچ جاتی ہے اور شک گزرتا ہے کہ شاید یہ محمد رسول اللہﷺ کی غلامی ظاہر کرتا ہے۔
درجہ بالا تذکرہ اور صورتحال اور حقائق یہ بات ثابت کر رہے ہیں کہ قادیانی غلام احمد نام سے بیزار ہیں اس لیے کسی بھی قادیانی جماعت میں ۲/۳ فیصد بھی ایسے نام نہیں ملیں گے حالانکہ ۵۰ فیصد سے زائد نام مرزا غلام احمد قادیانی کے حوالے سے ہونے چاہئیں تھے مگر ۲ فیصد بھی نام نہیں ملیں گے جو کہ قادیانی کی اپنے نبی کے نام سے بیزاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
(اوصاف ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۰۰ئ)
(۲۲) … مرزا غلام احمد قادیانی اور ’’اسلام کی خدمت‘‘!
اب ذرا قادیانی جماعت کے اس دعوے کو پرکھا جائے کہ حدیث میں جو دجل سے استدلال امام مہدی کا لیا جاتا ہے اور اس کے مطابق مرزا قادیانی امام مہدی بن گئے تو کیا وہ امام مہدی جیسا کام کرسکے۔ اگر یہ مان بھی لیاجائے کہ وہ پیشین گوئی کے مطابق امام مہدی بن کر آگئے آنے والے مسیح کی جگہ ’’مسیح موعود‘‘ محمد رسول اللہؐ کی بعثت ثانیہ کے مصداق بن کر آئے ہیں (معاذ اللہ) تو کیا ان تینوں ذمہ داریوں کے مطابق وہ اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ اسلام کو مضبوط اور غالب کرسکے جو امام مہدی نے کرنا تھا۔
مرزا قادیانی نے ۱۸۸۹ء (قادیانی جماعت کے آغاز کا سال) سے ۱۹۰۸ء تک (مرزا کی وفات) مناظروں، مباحثوں، تصنیف و تالیف کا بہت کام کیا۔ ۸۰ کے قریب کتابیں لکھیں مگر ان میں فلسفہ اسلام کی بجائے لڑائی جھگڑے، مباہلے اپنے الہامات دوسرے کے خلاف پیشن گوئیوں اور پھر ان کے پورے ہونے پر اصرار اور انگریزوں کی خوشامد کے تذکرے ملیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مرزا قادیانی نے کہا تھا کہ جو قادیانی میری کتابوں کو تین دفعہ نہیں پڑھتا۔ اس کے دل میں کبر پایا جاتا ہے اور صورت احوال یہ ہے کہ ایک فیصد بھی ایسے قادیانی نہیں جنہوں نے