واضح رہے کہ اب قادیانی خود بچوں کے نام نہیں رکھتے بلکہ پیدائش سے قبل ہی لندن میں خط لکھ دیتے ہیں نام کے لیے۔ وہاں سے دو نام آ جاتے ہیں کہ اگر لڑکا ہو تو یہ نام رکھیں اور لڑکی ہو تو یہ۔ ان کی طرف سے محمد، عمر، عثمان، حسن، حسین، فاطمہ، خدیجہ، آمنہ، زینب جیسے اسلامی ناموں سے مکمل ’’پرہیز‘‘ کیا جاتا ہے۔ بے شک وہاں سے ’’گوری‘‘۔ ’’کالی‘‘ جیسے نام آ جائیں بخوشی قبول کرکے بچوں کے منہ پر مل دیں گے۔ (روزنامہ اوصاف اسلام آباد، مورخہ ۵؍مئی ۲۰۰۰ئ)
(۵) … قادیانیوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کو ناکام ثابت کر دیا
قادیانی جماعت اپنی تحریر و تقریر میں عوام الناس بالخصوص قادیانی احباب کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتی ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی ایسے میں دنیا میں آئے جب لوگ اسلام سے دور جاچکے تھے۔ مسلمان صرف نام کے مسلمان رہ گئے تھے۔ زمانہ جاہلیت ایک بار پھر بنی نوع انسان کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا اور مسلمان کسی مسیحا کی تلاش میں تھے۔ اس وقت مرزا صاحب آئے تاکہ اصل اسلام کو پیش کرکے اسلام سے دور ہونے والے مسلمانوں کو ایک بار پھر اسلام کے قریب لاسکیں اور غیر مسلموں کو اسلام کا اصل چہرہ پیش کرکے اسلام کے خلاف ان کی غلط فہمیوں کو دور کرسکیں۔ عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے اسلام پر حملوں کا دفاع کرسکیں۔ مسلمانوں کی تربیت کرکے ان کو خدا کے قریب لاسکیں تاکہ دنیا میں مسلمان ایک سچے مسلمان کی طرح رہ کر معاشرہ میں پیدا ہونے والے بگاڑ کو دور کرسکیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ توحید کا قیام یعنی لوگوں کو ایک خدا کی طرف لا کر دنیاوی بتوں کو توڑ دیا جائے۔
اب جبکہ مرزا صاحب کو دنیا میں آکر اپنی پوری کوشش کے ساتھ اپنے جوہر دکھا کر ایک جماعت کو وجود میں لائے ایک سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور مرزا صاحب کے بعد ان کے چار جانشین اس جماعت میں اپنی پوری قوت و ہمت کے ساتھ اس کی تنظیم و ترقی میں اپنا کردار ادا کر چکے ہیں۔ تو آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا مرزا صاحب اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے؟ جو دعوے انہوں نے کیے تھے کیا وہ پورے ہوئے؟ انہوں نے جو کہا تھا کہ اب اسلام کی ترقی ان کے ذریعہ ہوگی اور دنیا میں بہترین اسلامی معاشرہ اب ان کے دم سے وجود میں آئے گا کیا ان کا یہ دعویٰ سچ ثابت ہوا؟
ایک ایسا آدمی جو مدعی نبوت ہو تو اس کے تمام دعوے سچے ہوتے ہیں۔ اس کے