(۳۲) … ’’اک حرف مخلصانہ‘‘
احباب جماعت! اس عاجز نے آپ کے ساتھ مل کر ۳۵ سال سے زائد عرصہ تک قادیانیت کی ترقی و تبلیغ کے لیے اپنی استعداد سے بڑھ کر خدمت کی ہے۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں ہر مقام پر جماعت کی عزت کو بڑھانے اور جماعت کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتا تھا۔ اس دور میں جبکہ مجھے ساری توجہ اور وقت تعلیم کی طرف دینا چاہیے تھا، بہت سا وقت بلکہ بہت زیادہ وقت جماعتی کاموں میں خرچ کیا۔ ظاہر ہے اس کے نتیجہ میں تعلیمی ترقی متأثر ہوتی رہی۔ مگر اس وقت ایک مذہبی جنون طاری تھا۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایم ایس سی کے دوران قائد (زعیم) خدام الاحمدیہ نیو کیمپس لاہور (حلقہ نیو کیمپس ہاسٹلز) اور قیادت ماڈل ٹائون میں بطور ناظم تعلیم اور ضلع لاہور کی سطح پر نائب ناظم اصلاح و ارشاد (تبلیغ) کے طور پر کام کرتے ہوئے بہت زیادہ وقت جماعت کو دیا۔ ۱۹۸۴ء تا ۱۹۸۶ء راولپنڈی میں قیام کے دوران ناظم تعلیم قیادت خدام الاحمدیہ علاقہ راولپنڈی کی حیثیت سے کام کیا۔ چکوال کالج میں سروس کے دوران نگران خدام الاحمدیہ ضلع چکوال کے طورپر خدمات انجام دیں۔ گورنمنٹ ڈگری کالج جہلم میں ٹرانسفر ہونے کے بعد مقامی جماعت کے عہدیدار کے علاوہ ناظم تعلیم ضلع جہلم اور نائب امیر جماعت ضلع جہلم کے طور پر خدمات انجام دیتا رہا۔ درج بالا عہدوں پر کام کرنا کوئی باعث فخر نہ سمجھتا تھا بلکہ ایک مخلص قادیانی کی طرح سر جھکائے ہر خدمت میں آگے بڑھنا ایک سعادت سمجھتا تھا۔ مگر پھر کیا ہوا؟۱۹۹۰ء تا ۱۹۹۵ء جماعت کے ساتھ تمام قسم کے اخلاص کے باوجود بعض ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آہستہ آہستہ جماعت کی مذہبی، اخلاقی حالت منکشف ہوتی چلی گئی۔ نظام جماعت ’’برہنہ‘‘ ہوتا چلا گیا۔ اخلاقی اقدار کے محل زمین بوس ہوتے گئے اور اپنے آبائو اجداد کی طرف سے ورثے میں ملے ہوئے دین پر نظر ثانی کا موقع ملا۔ چنانچہ غور و خوض کے بعد جو کم از کم پانچ سال کے عرصہ پر محیط ہے میں ایک نتیجہ پر پہنچا۔ جو پندرہ جنوری ۱۹۹۹ء بروز جمعۃ الوداع اپنے بھائی۔ والد محترم سمیت کل ۱۳ افراد کے ساتھ قبول اسلام کے اعلان کی صورت میں ظاہر ہوا۔ بعد میں مزید چھ افراد اور شامل ہوگئے۔
احباب جماعت! میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مرزا غلام احمدقادیانی نے اپنی سیالکوٹ