کا اختیارنہ دیا جائے۔ تاکہ وہ ان مشکلات سے بچ جائے۔ بتلایا جائے کہ یہ عورت کی خیرخواہی ہے یا بدخواہی؟
مگر ناس ہو یورپ اور مستشرقین کی اندھی تقلید کا کہ اس نے اپنے ذہنی غلاموں کو ایسا متأثر کیا کہ وہ ہر چیز کو ان کی عینک سے دیکھتے ہیں اور اسی زاویۂ نگاہ سے اسلامی احکام پر نقد وتنقید کے نشتر چلاتے ہیں۔
بلاشبہ مرزائیوں کا یہ اعتراض بھی میرے خیال میں اپنے آقاؤں کی اندھی تقلید کا نتیجہ ہے۔ ورنہ شاید وہ بھی اپنی خواتین کو حق طلاق دینے کے روادار نہیں ہوں گے۔ اگر ایسا ہوتا تو ان کی عورتیں کب کی ان پر دو حرف بھیج کر جاچکی ہوتیں۔
آخر میں ہم خواتین کے حق طلاق کا مطالبہ کرنے والوں سے یہ بھی پوچھنا چاہیں گے کہ اگر آپ ہی کی طرح کا کوئی عقل مند کل کلاں یہ اعتراض کر بیٹھے کہ:
۱… اﷲ تعالیٰ نے مردوں کی داڑھی بنائی ہے تو عورتوں کو اس سے کیوں محروم رکھا؟
۲… عورت اور مرد کے جنسی اعضاء مختلف کیوں ہیں؟
۳… ہر دفعہ خواتین ہی بچے کیوں جنتی ہیں؟ مردوں کو اس سے مستثنیٰ کیوں رکھاگیا؟
۴… بچوں کو دودھ پہلانے کی ذمہ داری عورت پر کیوں رکھی گئی؟
۵… عورت ہی کو حیض ونفاس کیوں آتا ہے؟۶… حمل اور وضع حمل کی تکلیف مردوں کو کیوں نہیں دی گئی؟
تو بتلایا جائے کہ آپ ان سوالوں کا کیا جواب دیں گے؟ یہی ناں کہ مردوں اور خواتین کی جسمانی ساخت اور فطری استعداد کا نتیجہ ہے اور اﷲتعالیٰ نے جس کو جیسی صلاحیتیں عطاء فرمائی ہیں اسی کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ فرمایا ہے۔ بالکل اسی طرح خواتین کے حق طلاق کے مطالبے کا بھی یہی جواب ہے کہ جس ذات نے عورت اور مرد کو پیدا فرمایا ہے اس نے ان کی صلاحیتوں اور جسمانی ساخت کے پیش نظر ہر ایک کے فرائض بھی تقسیم فرمائے ہیں۔ اس لئے اگر مردوں کے بچے نہ جننے، حمل، وضع حمل، رضاعت اور ان کو حیض ونفاس نہ آنے پر قادیانیوں اور ان کے روحانی آباء واجداد… یورپی مستشرقین کو کوئی اعتراض نہیں تو مردوں کے حق طلاق پر انہیں کیونکر اعتراض ہے؟
تحلیل شرعی میں عورت ہی کیوں استعمال ہو؟
۱۱… ’’حضرت محمدﷺ نے حلالہ کے قانون میں عورت کو کسی بے جان چیز یا بھیڑبکری کی