بابت سال ۱۹۰۷ء اور۱۹۰۸ء پنجاب میں اب کے طاعون کا پہلا جیسا زور نہیں ہوگا ۔ البتہ ممالک مغربی وشمالی میں بہت زیادہ ہوگا۔ دلی میں بھی گزشتہ سال سے زیادہ ہوگا۔ پنجاب کے ایک بہت بڑے مذہبی لیڈر جن کا دعویٰ ہے کہ ان کوطاعون نہیں ہو سکتا طاعون سے انتقال کریں گے۔‘‘جب مرزا قادیانی کو یہ پڑھ کر سنایا گیا تو مرزا قادیانی نے کہا ’’ یہ ایک پیشگوئی ہے جو اس اخبار میں درج ہے۔ اب خودبخود سچائی ظاہر ہو جائے گی۔‘‘اور مرزا قادیانی نے اپنے ایک مخالف کے بارے میں کہا کہ وہ طاعون میںمبتلا ہوا اورچند گھنٹوں میں مر گیا۔ مرزا قادیانی بھی شام کوسیر کے لئے آئے اور رات کوبیمار ہوئے اور چند گھنٹوں میں ہی مر گئے۔ ممکن ہے کہ طاعون سے ہی مرے ہوں اوراس وقت اگر یہ خبر باہر نکلتی تو مرزا قادیانی کا قائم کردہ مذہب ایک رات میں ہی ختم ہوجاتا۔ اس لئے ممکن ہے کہ خبر دباد ی گئی ہو۔ لیکن ایک بات ہے کہ مرزا قادیانی اس پیشگوئی کے مطابق بھی ۱۹۰۸ء میں ہی مرے۔ یعنی مرزا قادیانی خود تسلیم کر گئے کہ اگر وہ ان پیشگوئیوں کے نتیجے میں مرے تو سچائی ظاہر ہوجائے گی۔ یعنی ان کی جھوٹی نبوت کا پردہ چاک ہو جائے گا اورسچائی ظاہر ہوئی اورڈنکے کی چوٹ پر ظاہر ہوئی اورمرزاقادیانی کو تا قیامت جھوٹا قرار دے گئی۔ کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن یہ بھی کافی ہے۔ظاہر کرنے کے لئے
دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری
نوٹ : اس مضمون میں لکھے گئے حقائق کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ صرف مضمون کو طوالت سے بچانے کے اور تسلسل قائم رکھنے کے لئے حوالہ جات نہیں دیئے گئے۔
(۵) … مرزاقادیانی کی گل افشانیاں
(شیخ راحیل احمد۔ جرمنی)
نوٹ : اس آرٹیکل کا نام گل افشانیاں ،مرزا غلام احمد قادیانی کے شیعہ استاد گل علی شاہ کے نام کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ مرزا قادیانی فرمایا کرتے تھے کہ گل علی شاہ نے کبھی نماز نہیں پڑھی۔ ہر وقت پینک میں رہتے تھے اور ان نزدیک ہربلا کا رد’’تبرا‘‘تھا۔خیال تھا کہ چلو اس طرح مرزا قادیانی کے ساتھ ان کے بدنصیب استادکا بھی ذکر خیر ہوجائے۔ ممکن ہے کہ کوئی دوست کہیں کہ بدنصیب کیوں؟ تومیرا جوابی سوال ہے کہ جس کو مرزا قادیانی بطور شاگرد نصیب ہوا وہ خوش نصیب بھی ہو سکتا ہے؟
مرزا غلام احمد قادیانی بانی قادیانی جماعت(احمدیہ) کی زندگی، تحریروں اوراقوال ،