ایک جو صرف چندہ دیتا ہے تو جماعت کی نظر میں مقبول اور ساری زندگی کی خوشیاں اور جذبات قربان کردے مگر چندہ نہ دے سکے تو ناقابل قبول۔ یہ ایک مخلص قادیانی کے ساتھ ظلم کی حد تک زیادتی ہے۔ اس کے باوجود ایک مخلص قادیانی کو یہ سمجھ نہیں آئے گی کہ ہمارے ساتھ کیا ہاتھ ہو رہا ہے؟ اسے پھر بھی سمجھ نہیں آئے گی کہ یہ سارا ’’نیٹ ورک‘‘ چندہ جمع کرنے کے لیے ہے۔ ذرا سوچئے! چندہ دیا تو مخلص قادیانی نہ دیا تو ختم۔ تو قادیانی ہی نہیں رہ سکتے۔ تو اصل کیا چیز ہے؟ چندہ، پیسہ، دولت، باقی قربانیاں یا افلاس کھوہ کھاتے؟
(۳۰) … قادیانیوں کی طرف سے مسلمانوں کا بائیکاٹ
۱۹۷۴ء میں جب قادیانیوں کے خلاف تحریک چلی تو مسلمانوں کی طرف سے قادیانیوں کا کسی حد تک سوشل بائیکاٹ کیا گیا۔ علماء نے مسلمانوں کو سوشل بائیکاٹ کے لیے اکسایا تو قادیانیوں نے موقف اختیار کیا کہ بائیکاٹ تو کفار نے مسلمانوں کا کیا تھا۔ شعب ابی طالب کا واقعہ بتا کر۔ آغاز اسلام سے بائیکاٹ کے حوالے دے کر، یہ بتانے کی کوشش کرتے رہے کہ کفار نے، دشمنان اسلام نے، یا غیر مسلموں نے اسلام قبول کرنے والوں کا بائیکاٹ کیا۔ اور یہ بطور اصول پیش کیا کہ ہمیشہ کفار مسلمانوں کا بائیکاٹ کرتے آتے ہیں۔ اور یہ حوالہ دے کر وہ اپنے آپ کو مسلمان اور مسلمانوں کو غیر مسلم ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
۱۵؍جنوری ۱۹۹۹ء بروز جمعۃ الوداع راقم نے اپنے بھائی اور والد سمیت ۱۳؍افراد کے ساتھ قادیانیت سے توبہ کرکے اسلام قبول کرلیا۔ ہمارے آبائی گائوں محمود آباد جہلم ہے جہاں قادیانیوں کی اکثریت ہوا کرتی تھی اب بھی تقریباً نصف مکان قادیانیوں کے ہیں۔ گائوں کے جاگیردار، زمیندار قادیانی ہی ہیں۔ وہاں قادیانیوں کا اثر و رسوخ مسلمانوں سے زیادہ ہے محمود آباد جہلم کا منی چناب نگر (ربوہ) ہے۔ وہاں قادیانیوں کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ وہاں پر قادیانیوں کی دہشت گردی، ظلم، سینہ زوری کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ جب ہم نے اسلام قبول کیا تو اس کا ردعمل قادیانیوں کی طرف سے شدید ہوا۔ تمام نے سوشل بائیکاٹ کردیا۔ مرزا طاہر احمد کا بھتیجا مرزا نصیر احمد طارق ضلع جہلم کا امیر جماعت ہے۔ اس نے ہمارے رشتہ داروں کو چپ بورڈ فیکٹری جہلم بلا کر دھمکی دی کہ اگر آپ نے ان کا بائیکاٹ نہ کیا تو آپ کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ اب حالت یہ ہے کہ تقریباً تمام رشتہ دار اور قادیانی افراد کی طرف سے مکمل سوشل بائیکاٹ ہے۔