قیام پاکستان سے قبل جہلم میں خاصی جماعتیں اور تعداد ہوا کرتی تھی مگر بعد میں قادیانی آہستہ آہستہ جماعت چھوڑتے چلے گئے بعض جماعتیں ختم ہوگئیں اور دیگر سکڑ کر ’’ٹھگنی‘‘ ہوگئیں۔
قادیانیوں کی پورے ضلع میں کل تعداد ایک ہزار سے کم ہے جبکہ مسلمانوں کی تعداد ضلع جہلم میں ۱۵ لاکھ سے زائد ہوگئی۔۱۹۵۳ء سے قادیانیت کا گراف جہلم میں بطور خاص تیزی سے نیچے آ رہا ہے اگر قیام پاکستان سے قبل کی تعداد کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر وہی تعداد یا خاندان قادیانیت پر قائم رہتے تو آج تیسری نسل بعد ان کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہوتی جبکہ اس وقت ان کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے گویا ۹۹ فیصد جماعت کم ہوگئی یہ کیا؟ پہلے سے موجود قادیانی ہی قائم نہ رہ سکے تو نئے کیا ہونے تھے اگر جہلم کی زمین زرخیز تھی تو تعداد تو بڑھنی چاہیے تھی۔ اور نئے خاندان قادیانیت میں آنے چاہیے تھے۔ مگر یہاں گنگا الٹا بہتی رہی ہے۔ گویا جہلم کی زمین زرخیز نہ ہوسکی اور یہ قول غلط ثابت ہوگیا اور برکتوں کا الہام بھی مٹی کی دھول ثابت ہوا۔
(اوصاف ۱۶؍جولائی ۲۰۰۰ئ)
(۱۳) … قادیانی آبادی میں ’’مسلمان اقلیت‘‘
قادیانیوں نے دنیا بھر میں اپنی مظلومیت کا پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے عالمی اداروں خصوصاً انسانی حقوق کی تنظیموں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں پر بہت ظلم ہو رہا ہے۔ ان کی تمام آزادیوں کو سلب کر لیا گیا ہے ان کی املاک کا تحفظ نہیں ہے۔ ان کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ’’مظلوم جماعت‘‘ کو جہاں اپنی طاقت آزمانے کا موقع ملتا ہے وہاں پر یہ کتنا ’’مظلومانہ ظلم‘‘ کرتی ہے؟ قادیانی افراد کس طرح اپنے سے کمزور لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔ ان کے حقوق غصب کرتے ہیں۔
’’محمود آباد‘‘ ضلع جہلم میں قادیانیوں کی اکثریت والا واحد گائوں ہے (اب محلہ بن گیا ہے)۔ اس گائوں کی ۸۰ فیصد آبادی پہلے قادیانی ہوا کرتی تھی۔ اس کا پہلے نام ’’احمدی پور‘‘ بھی رہ چکا ہے۔ آہستہ آہستہ تعداد کم ہوتے ہوتے اب ۵۰ فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔ گو ابھی تک ’’طاقتور طبقہ‘‘ قادیانی ہی ہے۔ اس گائوں میں مسلمان ’’اقلیت‘‘ بن کر رہ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ قادیانیوں کا سلوک اقلیتوں جیسا ہی ہے۔ قادیانی مسلمانوں کو ہر لحاظ سے اپنے زیر اثر رکھتے