تیرے لئے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گزار بن کر تیری خدمت کریں اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کریں بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو تو اس کا محاصرہ کرنا، اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضے میں کر دے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا۔ لیکن عورتوں اور بال بچوں اور چوپائیوں اور اس شہر کے سب مال لوٹ کو اپنے لئے رکھ لینا اور تو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھ کو دی ہو کھانا۔‘‘
مال غنیمت میں آنے والی عورتیں لونڈیاں کیوں؟
۵… ’’مال غنیمت کے طور پر دشمن کی عورتیں مسلمانوں کے لئے کیوں حلال قرار دیں؟ کیا عورتیں انسان نہیں۔ بھیڑ بکریاں ہیں۔ جنہیں مال غنیمت کے طور پر بانٹا جائے اور استعمال کیا جائے؟‘‘
جواب… دشمن سے لڑائی، قتال اور جہاد کی صورت میں کفار ومشرکین کے جو افراد گرفتار ہوجائیں وہ قیدی کہلاتے ہیں۔ پھر اگر مسلمان فوج کے کچھ افراد مخالفین کے ہاتھوں گرفتار ہو جائیں تو کفار قیدیوں سے تبادلہ کر کے مسلمانوں کو چھڑایا جائے گا۔ اس کے علاوہ جو بچ رہیں گے ان کو غلام اور لونڈیاں قرار دے کر انہیں مسلمان فوجیوں میں بطور مال غنیمت تقسیم کر دیا جائے گا۔ اس کا نام ہے ’’غلامی کا مسئلہ‘‘
غلامی کے اس مسئلے پر عام طور پر اسلام دشمن یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور مسلمانوں کی جانب سے یہ انسانوں پر ظلم ہے۔ اس عنوان سے عیسائی دنیا اور انسانی حقوق کے نام نہاد علم بردار بھی اعتراض کیا کرتے ہیں۔ قادیانیوں کا اس مسئلے پر اعتراض کرنا دراصل اپنے عیسائی آقاؤں کی ہم نوائی اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے مترادف ہے۔ بلکہ ان کے منہ کی بات چھین کر اپنے منہ سے نکالنے کی مانند ہے۔ جب کہ قادیانیوں اور ان کے آقاؤں کو معلوم ہونا چاہئے کہ غلامی کا مسئلہ اسلام نے جاری نہیں فرمایا۔ بلکہ یہ قبل از اسلام عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی جاری تھا۔ چنانچہ غلاموں اور لونڈیوں کا تذکرہ خود بائبل میں بایں الفاظ موجود ہے۔
الف… ’’اور یعقوب نے لابن سے کہا کہ میری مدت پوری ہوگئی۔ سو میری بیوی مجھے دے تاکہ میں اس کے پاس جاؤں تب لابن نے اس جگہ کے سب لوگوں کو بلا کر جمع کیا اور ان کی ضیافت کی… اور لابن نے اپنی لونڈی زلفہ، اپنی بیٹی لیاہ کے ساتھ کردی کہ اس کی لونڈی ہو۔‘‘
(پیدائش باب۲۹، آیت۲۱تا۲۴)