دیتے ہوئے خود اپنے بارہ میں لکھتا ہے: ’’میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشینگوئی جھوٹی نکلی...تو میں ہر ایک سزا کے اٹھانے کے لئے تیار ہوں، مجھ کو ذلیل کیا جاوے، روسیاہ کیا جاوے، میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جاوے، مجھ کو پھانسی دے دیا جاوے، ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں...اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔‘‘ (جنگ مقدس ص۲۱۱، خزائن ج۶ ص۲۹۳) دیکھئے! مرزاقادیانی نے اپنی ذلت سے کیسی عزت کشید کرنا چاہی؟ مگر افسوس کہ جس طرح مرزاقادیانی اپنی ذلت سے عزت حاصل نہ کرسکے، بلکہ ذلیل کے ذلیل رہے، ٹھیک اسی طرح اس کی اولاد بھی اپنے آپ کو اور مرزاقادیانی کو بُرا بھلا کہنے کے باوجود کوئی عزت و شہرت نہ پاسکی۔
قطع نظر اس کے کہ قادیانی پاکستان میں ’’جشن ِ خلافت‘‘ نہ مناسکے اور ان کو اپنے اس مقصد میں ناکامی ہوئی، تاہم سوال یہ ہے کہ ان کا ’’جشن خلافت‘‘ منانا صحیح بھی ہے یا نہیں؟ کہیں یہ مرزا غلام احمد کی موت پر خوشی منانے کے مترادف تو نہیں ہوگا؟ اس لئے کہ:
۱… ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو مرزا غلام احمد قادیانی کی موت واقع ہوئی، اب ایک سو سال بعد ۲۶؍مئی ۲۰۰۸ء کو اس کی موت کو جب پورے سو سال ہوئے، اس موقع پر جشنِ خلافت کے نام سے خوشی منانا کیا مرزا کی موت کی خوشی نہ کہلائے گی؟ اگر نہیں تو کیوں؟
۲… مرزائی کہا کرتے ہیں کہ: ’’اجرائے نبوت ایک نعمت ہے اور یہ نعمت اگر بنی اسرائیل میں باقی تھی تو امت مسلمہ اس سے محروم کیوں ہے؟‘‘ سوال یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی موت پر ...قادیانیوں کے بقول... ’’نبوت جیسی نعمت‘‘ کے خاتمہ اور اجرائے خلافت پر جشن منانے کا کہیں یہ معنی تو نہیں ہوگا کہ خود قادیانی امت بھی ’’نبوت جیسی نعمت‘‘ کے انقطاع پر جشن منارہی ہے؟
۳… کیا آج تک کبھی کسی نے اپنے بڑے کی موت اور چھوٹے کی تاج پوشی پر خوشی منائی ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو کیا کہا جائے کہ چھوٹے کی تاج پوشی، بڑے کی موت سے زیادہ خوشی کی چیز ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے، تو عین اس دن جس دن مرزا غلام احمد قادیانی مرا تھا، جشن ِ خلافت منانا مرزا کی موت کا جشن نہ تصور ہوگا؟