محمدﷺ جب ایک رات میں ساتوں آسمانوں کی سیر کر سکتے ہیں۔ چاند کو دوٹکڑے کر سکتے ہیں۔ اتنے بڑے مذہب کے بانی اور خدا کے سب سے قریبی نبی ہیں تو کیا وہ خود مجھے ان سوالات کی پاداش میں مناسب سزا نہیں دے سکتے؟ اگر ہاں! تو اے میرے مسلمان بھائیو! مجھ پر اور میری طرح کے دیگر انسان مسلمانوں پر رحم کرو اور حضرت محمدﷺ کو موقع دو کہ وہ خود ہی ہمارے لئے کچھ نہ کچھ مناسب سزا تجویز فرمادیں گے۔‘‘
جواب… جیسا کہ تیرھویں سوال کے جواب میں ہم عرض کر چکے ہیں کہ سائل کا یہ سوال اور سوال کا انداز! نہایت گستاخی، بے ادبی اور ڈھٹائی پر مشتمل ہے اور یہ بلاشبہ آنحضرتﷺ کی ایذارسانی کے زمرے میں آتا ہے اور جو لوگ اﷲتعالیٰ اور آنحضرتﷺ کی ایذا رسانی کا باعث ہوں ان پر دنیا آخرت میں اﷲتعالیٰ کی لعنت ہے۔ (الاحزاب:۵۷)
سائل کا یہ کہنا کہ: ’’میرے مسلمان بھائیو! مجھ پر اور دیگر انسانوں پر رحم کرو اور حضرت محمدﷺ کو موقع دو کہ وہ خود ہمارے لئے مناسب سزا تجویز کریں۔‘‘ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی گستاخ، کسی ملک کے سربراہ یا صدر کی بدترین گستاخی کا ارتکاب کرے اور وہاں کی انتظامیہ اور پولیس سے کہے کہ مجھ پر رحم کرو اور ملک کے صدر یا سربراہ کو موقع دو کہ وہ میرے لئے کوئی مناسب سزا تجویز کرے۔ کیا خیال ہے اس ملک کی انتظامیہ اور پولیس اس کا راستہ چھوڑ دے گی؟ یا یہ کہہ کر اسے کیفر کردار تک پہنچائے گی کہ اس گستاخی کی سزا صدر یا سربراہ مملکت نہیں بلکہ ملکی قانون ودستور کی روشنی میں ہم ہی نافذ کریں گے؟
بتلایا جائے کہ امریکا بہادر کے نام نہاد ’’مسلمان باغیوں‘‘ کو افغانستان وعراق سے پکڑ کر اور گوانتا ناموبے لے جاکر ان کی اس ’’گستاخی‘‘ کی سزا صدر بش خود دے رہے ہیں یا اس کے آلۂ کار؟
بلاشبہ توہین رسالت کا قانون آج سے چودہ سو سال پہلے مرتب ہوچکا ہے اور گزشتہ چودہ صدیوں سے اس پر عمل ہوتا آرہا ہے اور پاکستان میں بھی ۱۹۸۴ء کے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس کا نفاذ ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس گستاخ سائل سے ہم کہنا چاہیں گے کہ آنحضرتﷺ کی جگہ آپﷺ کے خدام ہی تمہاری ’’خدمت‘‘ کے لئے موجود ہیں۔ اپنے شیش محل سے نکل کر سامنے آکر گستاخی کیجئے اور اپنا تماشا دیکھئے۔
کسی کو سوچ کی بنا پر کیوں کافر قرار دیا جاتا ہے؟
۱۵… ’’یاد رکھو! ایک مسلمان کا خون دوسرے پر حرام ہے اور کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ ایک