(۲۶) … دس مخلص قادیانی متوجہ ہوں
انسان ہر سال اور ہر دن کچھ نہ کچھ نئی باتیں سیکھتا ہے اور کچھ نئے علوم سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے ہر استاد بھی اپنے آپ کو طالب علم کہتا ہے کیونکہ وہ بھی ہر روز کچھ نہ کچھ سیکھ لیتا ہے۔
میں نے چالیس سال قادیانی جماعت میں گزارے، جماعت کے ’’ہر کام‘‘ میں حصہ لینے کی کوشش کی۔ مگر ہمیں صرف تبلیغی سرگرمیوں اور تنظیمی معاملات میں الجھائے رکھا۔ ہم نے اپنی استعداد سے بڑھ کر ان سرگرمیوں میں حصہ لیا گو مرزا قادیانی نے اپنی جماعت کو تاکید کی تھی کہ وہ میری کتابوں کو پڑھیں اور ’’فرمایا‘‘ تھا کہ جو میری کتابوں کو تین بار نہیں پڑھتا۔ مجھے اس کے ایمان پرشک ہے۔ دوسری جگہ کہا کہ اس کے دل میں کبر پایا جاتا ہے۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران میں نے فیصلہ کیا کہ میں ساری کتب (مرزا صاحب کی) کو کم از کم ایک بار ضرور پڑھوں گا۔ مگر جب میں نے چھوٹی بڑی ۱۲ کتب پڑھ لیں تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اگرمیں نے مزید آگے قدم بڑھایا تو میرے دل سے قادیانیت کی روح نکل جائے گی اور قادیانیت کا مزہ ’’کرکرا‘‘ ہو جائے گا۔ میں اس وقت پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے قادیانی طلباء (یونیورسٹی ہوسٹلز میں) کا ’’زعیم‘‘ (قائد) تھا۔ قیادت ماڈل ٹائون لاہور (۱۵ کلو میٹر پر پھیلی خدام کی تنظیم) میں ناظم تعلیم اور ضلع لاہور کی قیادت میں نائب ناظم اصلاح و ارشاد (تبلیغ) تھا۔
۱۹۸۲ء کے بعد ۱۹۹۵ء تک میں نے دوبارہ مرزا قادیانی کی کتب پڑھنے کی ’’غلطی‘‘ نہیں کی، وہ کیا محرکات تھے؟ جن کی وجہ سے میں قادیانیت سے متنفر ہوا اس کی مکمل مرحلہ وار تفصیل اپنی کتاب ’’قادیانیت سے اسلام تک‘‘ میں آئے گی۔ آج میں اس بات کا بھی اعتراف کرتا ہوں کہ جس شخص کو ہم نبی، رسول، مسیح موعود، امام مہدی، مجدد، مہدی آخر زماں وغیرہ وغیرہ مانتے تھے اس کی تعلیم کو ہم نے پڑھا ہی نہیں اور صرف اپنے والدین سے ملنے والے مذہب کو اسی طرح قبول کرنے پر اکتفاء کیا۔ مگر آج جب کہ خدا کے خاص فضل سے اسلام قبول کر چکا ہوں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو جو ابھی تک قادیانیت کے ’’کنویں‘‘ میں پڑے ہیں پر بڑا ترس آتا ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ وہ نسل در نسل ایک غلطی کو پال کر اسلام سے اتنا دور ہوچکے ہیں کہ واپسی ناممکن نظر آتی ہے آج مجھے مرزا قادیانی کی کچھ کتب کے کچھ حصے ایسے بھی پڑھنے کو ملے ہیں کہ اگر میں یونیورسٹی کے دوران پڑھ لیتا تو شاید میں اپنی انسانی کمزوری کی وجہ سے قادیانیت کو چھوڑ نہ سکتا۔ مگر اتنا ضرور ہوتا کہ اپنی تمام توانائیوں کو قادیانیت کی تبلیغ اور تنظیم پر ضائع