وہ بجائے خوش ہونے کے اس پر روتے تھے۔ حضرت زیدؓ کو جب ان کے والدین تلاش کرتے کرتے بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور آپﷺ سے ان کو ساتھ لے جانے کی درخواست کی اور آپﷺ نے ان کو والدین کے ساتھ جانے اور نہ جانے کا اختیار دے دیا تو انہوں نے آزادی اور والدین کے ساتھ جانے پر غلامی اور حضورﷺ کی خدمت میں رہنے کو ترجیح نہیں دی؟ کیا اب بھی عیسائیوں، قادیانیوں کو مسلمانوں کے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک پر اعتراض کا حق ہے؟
مذہب کے نام پر قتل وغارت گری کیوں؟
۶… ’’مذہب کے نام پر قتل وغارت گری کو جہاد قرار دے کر اسے اسلام کا پانچواں بنیادی رکن بنانے کی سزا ماضی کے لاکھوں کروڑوں معصوم انسان بے شمار جنگوں کے نتیجے میں اپنی جان مال سے محروم ہوکر بھگت چکے ہیں اور عراق، افغانستان جنگ کی شکل میں آج بھی بھگت رہے ہیں۔ آخر اس ’’جہاد‘‘ کو بذریعہ اجتہاد ’’جارحیت‘‘ کے بجائے ’’دفاع‘‘ کے لئے کیوں استعمال نہیں کیا جاتا؟‘‘
جواب… اس سوال کا جواب کسی قدر چوتھے سوال کے جواب کے ضمن میں آچکا ہے اور ثابت کیا جاچکا ہے کہ جہاد کا حکم حضرت محمدﷺ نے نہیں بلکہ اﷲتعالیٰ نے دیا ہے۔
نیز یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ اسلام نے جہاد کا حکم کفر وشرک کے فتنے کے استیصال کے لئے دیا ہے اور یہ عقل وانصاف کے عین مطابق ہے۔ اگر دنیا کے دو پیسے کے حکمران، اپنی مخالفت اور بغاوت کرنے والوں کی سرکوبی، ان کے فتنے کو ختم کرنے اور اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے لاکھوں انسانوں کا خون بہا سکتے ہیں تو مالک ارض وسما کی ذات، جس نے جنوں اور انسانوں کو اپنی طاعت وعبادت کے لئے پیدا فرمایا تھا۔ اگر وہ جن وانس اس سے بغاوت کا ارتکاب کریں تو کیا اس ذات کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے نمائندوں اور اپنی سپاہ کے ذریعہ ان کی سرکوبی کرے؟
اسلامی جہاد کے نام پر نام نہاد قتل وغارت گری کا طعنہ دینے والوں کو شاید یہ یاد نہیں رہا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کی پوری ۲۳سالہ نبوی تاریخ گواہ ہے کہ اس عرصے میں صرف ساڑھے تین سو مسلمان شہید ہوئے اور اس سے کچھ زیادہ کفار بھی کام آئے۔ نامعلوم اس کے مقابلے میں ان کو اسلام دشمنوں کی انسانیت کشی کی تاریخ کے سیاہ کارنامے کیوں بھول جاتے ہیں؟ اور انہیں یہ کیوں یاد نہیں رہتا کہ مسلمانوں کو دہشت گرد اور جہاد کو دہشت گردی کہنے والے درندوں نے کس قدر انسانوں کو تہ تیغ کیا ہے؟
ہیروشیما، ناگاساکی میں لاکھوں انسانوں کا قتل عام، بوسنیا، ہرزیگووینا میں مختصر سے