قادیانیوں کا اب مذہب سے کوئی خاص تعلق نہیں رہا۔ اب یہ صرف مالی حوالے سے ایک منظم نیٹ ورک کی حیثیت رکھتا ہے۔ مرزا قادیانی نے کہا تھا کہ جس قادیانی نے میری کتابوں کو تین بار نہ پڑھا تو سمجھ لو کہ اس کے دل میں کبر پایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے مرزا قادیانی کے فارمولے کے مطابق ۹۔۹۹ فیصد قادیانی ’’کبر‘‘ سے پر ہیں۔ گویا مرزا قادیانی کی بات ۹۔۹۹ فیصد قادیانیوں نے نہیں مانی۔ اس طرح قادیانی مذہب سے مزید کیا لگائو رکھیں گے جنہوں نے اپنے ’’نبی‘‘ کی بات نہیں مانی۔ ان کی کتابوں سے ’’فیض‘‘ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ ایک فیصد سے بھی کم قادیانی ہوں گے جو مرزا قادیانی کی کل کتابوں کے نام جانتے ہوں گے۔ مرزا صاحب کے ’’الہامات‘‘ کے مجموعہ کی کتاب کا نام ’’تذکرہ‘‘ ہے۔ بہت ہی کم قادیانی ایسے ہیں جنہوں نے اس کتاب کو دیکھا ہے یا اسے کچھ پڑھا ہوگا۔ بلکہ ایک ہزار میں سے ایک قادیانی ایسا ہوسکتا ہے جس نے ’’تذکرہ‘‘ کو مکمل پڑھا ہو۔
اس وقت موجود قادیانیوں کی ۹۰ فیصد سے زائد اکثریت پیدائشی قادیانی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نئے لوگ اس جماعت میں داخل نہیں ہو رہے بلکہ نسل در نسل نئے افراد کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ پیدائشی قادیانی کو قادیانیت کی سچائی کے لیے دلائل کی ضرورت نہیں۔ بس باپ دادا قادیانی تھے۔ تو وہ بھی اسی طرح چل رہے ہیں۔ سچائی دیکھ کر اسے قبول کرنا اور اپنا پہلا مذہب چھوڑنا بہت مشکل ہے۔ اس کے لیے ہمت و جرأت چاہیے جو عام آدمی میں نہیں ہوتی یہ صرف اللہ کی تائید سے ممکن ہوسکتا ہے۔ ’’اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کر دیتا ہے۔‘‘ (اوصاف اسلام آباد ۲۴ اگست ۲۰۰۰ئ)
(۱۷) … چندوں کی شرح اور بیعتوں کی تعداد میں تضاد
آج کل قادیانی جماعت یہ ’’اعداد و شماری تبلیغ‘‘ شروع کیے ہوئے ہے اور دھڑا دھڑ بیعتوں کے اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر پیش کیے جا رہے ہیں۔ دو لاکھ سے چلنے والی ’’گیم‘‘ اب چار کروڑ تک جا پہنچی ہے جو کہ اگلے سال (۲۰۰۱ئ) ۱۲سے ۱۶ کروڑ اور آئندہ ۵ سالوں میں ۳۰ سے ۴۰ ارب تک جاپہنچے گی۔ بیعتوں میں اضافے کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ قادیانیوں کے لیے بھی اسے تسلیم کرنا مشکل ہو رہا ہے وہ بھی سانس کھینچے اپنے ’’خلیفہ‘‘ کی ’’مذہبی بڑھکیں‘‘ سن رہے ہیں۔ نہ ہی احتجاج کرسکتے ہیں اور نہ ہی انکار۔ انکار اور احتجاج کی صورت میں انہیں سخت قسم کی اذیت میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کا تذکرہ میں اپنے مضمون ’’اخراج از جماعت‘‘ میں کر چکا ہوں۔