اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے، وہ اسلامی شعائر استعمال نہیں کرسکتے، اور پاکستان کی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ ان قانونی دفعات سے آگاہ ہے، بلکہ عام مسلمان تک اس سے آشنا ہے، لہٰذا اس کی خلاف ورزی پر ان کے خلاف ہر محاذ پر تعاقب کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ مسلمان، چاہے کتنا ہی گیا گزرا اور عملی طور پر کیسا ہی کمزور کیوں نہ ہو، مگر بہرحال وہ باغیانِ ختم نبوت کو برداشت کرنے کے لئے قطعاً آمادہ نہیں۔ جبکہ بحمداللہ! آج پاکستان میں ہر مسلمان باشعور اور دینی جذبات سے مامور ہے، اور قادیانی دجل و الحاد کے سامنے بند باندھنے کے لئے کمربستہ ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال: پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد کے قادیانی طلبہ کی سرِ عام تبلیغ کے خلاف غیور مسلمانوں اور ناموس رسالت کے پروانوں کا بھرپور احتجاج اور سدباب کی کوشش ہے، اس پر قادیانی طلبہ کی جارحیت، مار دھاڑ، فائرنگ اور دہشت گردی کا مظاہرہ اور اس کے ردِ عمل میں مسلمان طلبہ کا بھرپور احتجاج و مزاحمت اور کالج انتظامیہ کی جانب سے ۲۳ طلبہ و طالبات کا اخراج ہے.... یہ دوسری بات ہے کہ قادیانیت نواز سرکاری مہرے، پنجاب میڈیکل کالج کے عزت مآب پرنسپل کی اس جرأت مندانہ کارروائی اور مستحسن اقدام کو برداشت نہ کر پائیں۔
آج سے ساٹھ ستر سال قبل جب قادیانیوں کو انگریز کی سرپرستی حاصل تھی، قانون اور آئین ان کو تحفظ فراہم کرتا تھا، فوج، پولیس، انتظامیہ، عدلیہ اور بیوروکریسی ان کا ساتھ دیتی تھی، اگر اس وقت قادیانیوں کا جادو نہیں چل سکا تو اب جبکہ پولیس، فوج، انتظامیہ، عدلیہ، بیوروکریسی اور پاکستان کے ایوان زیریں سے لے کر بالا تک سب کے سب قادیانیوں کے کفر پر متفق ہیں، اب ان کی دال کیونکر گل سکتی ہے؟
اسی طرح بحمداللہ! بنگلہ دیش کا مسلمان بھی جاگ چکا ہے اور خیر سے بنگلہ دیش کی عدلیہ اور کورٹ نے بھی ان کی دعوت و تبلیغ کے علاوہ ان کی کتب و لٹریچر پر مکمل طور پر پابندی لگارکھی ہے، بلکہ درپردہ ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک تقریباً شروع ہوچکی ہے، ایسے میں بنگلہ دیش میں قادیانیت کیونکر پنپ سکے گی؟
اسی طرح بھارت میں بھی کئی سال سے مجلس تحفظ ختم نبوت فعال ہوچکی ہے اور جمعیت علماء ہند اور دارالعلوم دیوبند کے اکابرین اس فتنہ کی سرکوبی اور تعاقب میں سرگرم ہیں اور قادیانی مراکز میں جاجاکر مناقشہ، مناظرہ، مباہلہ اور تقریر و تحریر کے میدان میں ان کا ناطقہ بند کرچکے ہیں،